Maktaba Wahhabi

589 - 677
’’بے شک مستقبل میں تمہارے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان ایک معاملہ کھڑا کر دیا جائے گا۔‘‘ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے تعجب سے کہا: ((اَنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟)) ’’اے اللہ کے رسول! کیا میں وہ شخص ہوں ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((نَعَمْ)) ....’’ہاں !‘‘ پھر انھوں نے دوبارہ کہا: ((اَنَا؟)) ....’’کیا میں وہ بدنصیب ہوں ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((نَعَمْ)) ....’’ہاں !‘‘ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ((فَاَنَا اَشْقَاہُمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!)) ’’اے اللہ کے رسول! گویا میں ان سب میں سے بدبخت ترین ہوں ۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا،وَ لٰکِنْ اِذَا کَانَ ذٰلِکَ فَارْدُدْہَا اِلٰی مَاْمَنِہَا)) ’’نہیں ۔ ایسا نہیں ہے لیکن جب یہ معاملہ پیش آئے گا تو تم عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کے اصل مستقر تک پہنچا دینا۔‘‘[1] ابو الفداء ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ام المومنین نے بصرہ سے واپسی کا ارادہ کیا تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس اپنا قاصد بھیجا کہ جس جس چیز کی آپ کو ضرورت ہے مجھے بتا دیں ۔ چاہے سواری ہو، زاد راہ ہو یا کوئی اضافی سامان وغیرہ اور علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی جو ان کے ساتھ آئے تھے ۔ ہاں ، اگر وہ خوش دلی کے ساتھ یہاں رہنا چاہیں تو اس کی بھی انھیں اجازت ہے۔
Flag Counter