Maktaba Wahhabi

592 - 677
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا: اور وہ حدیث جو اس نے نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: تم ظالمانہ طور پر علی سے قتال کرو گی۔ یہ روایت کسی معتبر علمی کتاب میں نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی معروف سند ہے اور یہ صحیح احادیث کی نسبت موضوع اور مکذوب سے زیادہ مشابہ ہے بلکہ یہ سرے سے ہی جھوٹ ہے۔[1] دوم:.... سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا معروف و مشہور موقف یہی ہے کہ وہ صحابہ کے جلو میں لوگوں کے درمیان صلح کے لیے روانہ ہوئیں ، ان کی نیت قتال کی نہ تھی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا: ’’بے شک سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نہیں قتال کیا اور نہ وہ قتال کے ارادے سے روانہ ہوئیں ۔ بلکہ وہ تو مسلمانوں کے درمیان صلح اور اصلاح احوال کے لیے گئیں اور وہ سوچ رہی تھیں کہ ان کی روانگی میں مسلمانوں کی مصلحت پنہاں ہے اور جنگ جمل والے دن کسی صحابی کا قتال کا ارادہ نہ تھا۔ لیکن ان پر قتال ان کے ارادے کے بغیر مسلط کر دیا گیا۔ کیونکہ جب علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے درمیان مراسلت ہوئی تو سب اصلاح کے لیے متفق ہو گئے اور یہ کہ جب انھیں حالات پرکنٹرول حاصل ہو گیا تب اہل فتنہ سے عثمان کے قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کریں گے اور علی رضی اللہ عنہ قتل عثمان پر خوش نہ تھے اور نہ ہی انھوں نے اس میں معاونت کی تھی۔ جیسا کہ وہ حلفاً کہتے تھے: اللہ کی قسم! میں نے عثمان کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی میں نے قتل عثمان میں معاونت کی۔ چنانچہ وہ اپنی قسم میں سچے اور محسن ہیں ، تب قاتل اس اتفاق سے لرز اٹھے اور انھوں نے طلحہ اور زبیر رضی ا للہ عنہما کے خیموں پر حملہ کر دیا۔ سیّدنا طلحہ اور زبیر نے سمجھا کہ علی نے ان پر حملہ کیا ہے تو انھوں نے اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھا لیے اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ سوچا کہ طلحہ اور زبیر رضی ا للہ عنہما نے ان پر حملہ کر دیا تو انھوں نے بھی اپنے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھا لیے۔ تو ان کے اختیار کے بغیر فتنہ برپا ہو گیا۔ جبکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے اونٹ پر پالکی میں سوار تھیں نہ تو وہ قتال میں شریک ہوئیں اور نہ انھوں نے قتال کا حکم دیا۔ اکثر مورخین و سیرت نگاروں نے ایسے ہی لکھا ہے۔[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اصلاح کے لیے روانہ ہوئیں ۔ یہ سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات پر غور کرنا ضرورت ہے:
Flag Counter