Maktaba Wahhabi

593 - 677
۱۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بزبان خود فرما رہی ہیں کہ وہ اصلاح کے لیے جا رہی ہیں ۔ چنانچہ طبری نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے: ’’قعقاع (علی رضی اللہ عنہ کا نمائندہ) بصرہ پہنچا اور سب سے پہلے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اے امی جان! آپ خصوصاً اس شہر میں کیوں تشریف لائی ہیں ؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے میرے بیٹے! لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے۔‘‘[1] ۲۔یہ کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تحریر کیا کہ وہ لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے سفر پر روانہ ہوئی ہے۔ چنانچہ ابن حبان نے اپنی کتاب ’’الثقات‘‘ میں روایت کی: ’’زید بن صوحان سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے دو خط لے کر آیا۔ ایک ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے نام اور ایک اہل کوفہ کی طرف تھا دونوں مکتوبات کا ایک جیسا متن تھا: بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ’’ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے عبداللہ بن قیس اشعری کے نام، تم پر سلامتی ہو۔ میں تمہاری طرف اللہ کی حمد کرتی ہوں ، جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔ بعد ازیں ! قتل عثمان کا واقعہ آپ کے علم میں ہے۔ میں لوگوں کے درمیان اصلاح احوال کے لیے یہاں آئی ہوں ۔ آپ اپنے ماتحتوں کے گھروں تک یہ اقرار نامہ پہنچا دیں اور خوش دلی کے ساتھ ان کی رضامندی حاصل کریں ، تاکہ وہ مسلمانوں کے معاملات کی اصلاح کے لیے وہی کچھ کریں جو وہ چاہتے ہیں ، کیونکہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں نے جماعت کو بکھیر دیا اور اپنے لیے ہلاکت تجویز کر لی۔‘‘[2] ۳۔یہ کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے صلح نامے پر دستخط کیے۔ چنانچہ سیرت کی کتابوں میں درج ہے: ’’اس دن طلحہ اور زبیر رضی ا للہ عنہما کے ساتھ کچھ دیر تک لڑائی جاری رہی۔ لوگ پیچھے ہٹنے لگے اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صلح پر دستخط کر رہی تھیں ۔‘‘[3]
Flag Counter