Maktaba Wahhabi

647 - 677
اپنی اسی جگہ کا قصد کیا جہاں میں پڑاؤ کیا تھا اور مجھے یقین تھا کہ وہ جب مجھے گم پائیں گے تو تلاش کرتے کرتے یہاں ضرور آئیں گے۔[1] ۳۔ہماری امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا مدینہ منورہ دوپہر کو پہنچیں ۔ سب لوگوں کے سامنے اور چمکتے دن کے وسط میں ۔ نہ تو انھوں نے رات کے اندھیرے کا انتظار کیا اور نہ ہی شک و شبہ کو اپنے پاس پھٹکنے دیا۔ وہ جب لوگوں کے پاس پہنچیں تو ان کی اونٹنی کی مہار سیّدنا صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھی اور سورج آسمان کے افق میں خوب روشن تھا۔ جبکہ کسی قسم کی سازش میں ملوث لوگ رات کے سکوت کا انتظار کرتے ہیں اور اندھیروں کے پردوں میں اپنے آپ کو چھپاتے ہیں اور عام لوگوں کی نگاہوں سے کوسوں دُور رہتے ہیں ، تاکہ جب وہ لوٹیں تو انھیں کوئی دیکھ نہ لے۔ جب عقل درج بالا تمام حقائق کی توثیق کرتی ہے اور یہ سب کچھ صحیح ہے توبلاشبہ ام المؤمنین کی مدینہ میں آمد دوپہر کو ہونا ہر خبیث اور شرارتی شخص کے ہفوات کو ردّ کرتی ہے، جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کوئی مشکوک شخص ہوتا تو وہ رات کو تاخیر سے آنے کی کوئی علت یا توجیہ اور سبب ضرور بیان کرتا تو دوپہر کو لوٹنا سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت اور سلامتیٔ نیت کی واضح دلیل ہے۔ ۴۔سیّدنا صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کا لشکر کے پیچھے آنا صرف اسی غزوہ کی کوئی استثنائی صورت یا خصوصیت نہ تھی بلکہ ان کی ہمیشہ ہر سفر میں یہ ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ ہمیشہ لشکر سے ایک منزل کے فاصلے پر چلتے۔ جو بھی قافلے میں کسی وجہ سے سست پڑ جاتا، یا تھک جاتا اسے وہ سہارا دیتے اور راستے میں یا پڑاؤ کی جگہ کوئی بھی گری پڑی چیز انھیں ملتی تو لشکر میں اس کے مالک تک پہنچاتے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’ابن عمر رضی ا للہ عنہما کی روایت میں صفوان کے پیچھے پیچھے آنے کا سبب لکھا ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لشکرکے پیچھے آنے کی ذمہ داری طلب کی۔ جب لوگ روانہ ہونے لگتے تو وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگتے۔ پھر لوگ جب لشکر گاہ سے نکل جاتے تو وہ ان کے پیچھے پیچھے چل پڑتے، تو جس کی کوئی چیز گر جاتی وہ اسے لا دیتے۔‘‘ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے:
Flag Counter