Maktaba Wahhabi

648 - 677
’’صفوان رضی اللہ عنہ لوگوں سے پیچھے رہ جاتے تو وہ پیالہ[1] اونی تھیلا[2] یا کشکول[3] وغیرہ اٹھا لیتے اور اس کے مالک تک پہنچا دیتے۔‘‘[4] گویا یہ معمول کی بات تھی جسے سب لوگ جانتے تھے اور ہر صحابی صفوان تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا تھا تاکہ اگر وہ لشکر سے پیچھے رہ گیا ہو تو صفوان کی راہنمائی میں لشکر کے ساتھ مل جائے۔ یہ کوئی خفیہ راز نہ تھا اور نہ ہی کوئی استثنائی عمل تھا۔ جبکہ مشکوک اور مشتبہ آدمی اپنے جاننے والے کے قریب نہیں جاتا اور اپنی جان پہچان والوں سے دُور دُور رہتا ہے ۔ اپنے معمولات کو خفیہ اور راز بنا کر رکھتا ہے تاکہ وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہو سکے، لیکن صفوان رضی اللہ عنہ اس مشکوک رویہ سے کوسوں دُور تھے۔ اسی لیے بہتان تراشوں کا بہتان باطل ہو جاتا ہے۔ ۵۔مشکوک اور مشتبہ لوگوں پر ہمیشہ خوف اور قلق مسلط رہتا ہے اور ہمیشہ اپنے متعلق خبروں کی جستجو میں لگے رہتے ہیں ، وہ ہمیشہ خوف اور قلق سے لتھڑے ہوئے سوالات لوگوں سے کرتے رہتے ہیں کیا کسی کو معلوم ہوا؟ کیا واقعہ اس طرح ہوا؟ کیا کہا گیا؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی کوئی بات ہماری امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق سنائی نہیں دی، بلکہ وہ واپس اپنے گھر میں پاک دامن نفس اور طہارت قلبی کے ساتھ داخل ہوئیں ۔ البتہ انھیں سفر کی تکان کی وجہ سے تیز بخار ضرور تھا۔ جس وجہ سے ان کا گھر سے نکلنا محال ہو گیا۔ ہم نے ان کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں سنی کہ انھیں کسی قسم کا خوف، قلق یا پریشانی لاحق تھی۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ انھیں اپنی بیماری کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وہ لطف و عنایت نہ ملی جو اس سے پہلے ان کی کسی تکلیف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لطف و اہتمام ملتا تھا۔ یہی ایک بات سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے باعث تکلیف تھی۔ وہ فرماتی ہیں : ’’مجھے اس بات کا کچھ بھی علم نہ تھا اور مجھے اپنی بیماری کے دوران یہی چیز پریشان کرتی تھی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس لطف سے محروم تھی جو لطف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف
Flag Counter