Maktaba Wahhabi

652 - 677
نہ تو دلیل اس تہمت کی ہے اورنہ ان دعوؤں کی۔ بلکہ صفوان بن معطل اور سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی ا للہ عنہما کے ایمان کی دلیلوں سے سیرت کی کتابیں بھری ہوئی ہیں ۔ چنانچہ سیّدنا صفوان رضی اللہ عنہ ایک غیور مسلمان تھے۔ متعدد غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے اور وہ شہید ہوئے۔ ان کی طرف کسی برائی کو منسوب نہیں کیا جاتا۔ سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے ہر لفظ پر ایمان رکھتی تھیں اور اس قدر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی اس قدر محافظ تھیں کہ ان کے اس عمل سے برکت تو مل سکتی ہے کوئی غفلت نہیں ہو سکتی اور اب ایک پہلو رہ جاتا ہے کہ یہ تہمت قبول کرنے والا شخص اپنے آپ سے یہ پوچھے کہ صفوان رضی اللہ عنہ کا مذکورہ تعلق کب سے پیدا ہوا۔ کیا صرف اسی رات میں سب کچھ ہو گیا؟ اس آدمی نے سب سے پہلے ام المومنین پر ہلہ بولنے کی جرأت کیسے کر لی؟ حالانکہ وہ تو ان کی پالکی اٹھاتے وقت آواز دے کر ان کی موجودگی یا عدم موجودگی کی تاکید بھی نہ کر سکتے تھے اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس ہوس کے مارے نے یہ جرأت کر لی تو پھر یہ بات عقل کیسے مانے گی کہ صدیق کی بیٹی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب بیوی اتنی گری پڑی تھیں کہ جو بھی انھیں چھونا چاہتا تو وہ پہلے سے اس کام لیے تیار تھیں ؟!! بلاشبہ جو ایسی عورت ہو وہ ایسے بہتان سے اس وقت تک بے خبر نہیں رہ سکتی جب تک کوئی فرد معین بہتان تراشوں کی تہمتوں کے بارے میں اسے نہ بتلائے اور وہ سارے فسانے کا مرکزی کردار صفوان کے سر تھوپے اور اگر صفوان اور ہماری امی جان کے درمیان یہ تعلقات پہلے سے قائم تھے تو پھر کس طرح ان کی سوکنوں ، حاسدوں اور چغلی خوروں سے پوشیدہ رہے؟ اور ان دونوں کو دوران سفر یہ ظلم کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اور ایسے جانکاہ صدمے کے ارتکاب سے انھوں نے لشکر کی نگاہوں کے سامنے عین دوپہر کے لمحات میں کس طرح انکشاف کر دیا۔ یہ انتہائی گھٹیا اور ردی باتیں ہیں جن کو عقل سلیم قبول کرنے پر تیار نہیں ۔‘‘[1] ٭٭٭
Flag Counter