’’بے شک یہ کہا گیا کہ ہر وہ حدیث جس میں ’’یا حمیراء‘‘ کے الفاظ ہوں وہ غیر صحیح ہے۔‘‘[1]
بعض علماء جیسے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ [2]نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ہر وہ حدیث جس میں ’’یا حمیراء‘‘ یعنی اے حمیرا! کے الفاظ ہوتے ہیں وہ موضوع ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے واضح طور پر لکھا: ہر وہ حدیث جس میں ’’یا حمیرا‘‘ کے الفاظ ہوں یا حمیرا کا تذکرہ ہو، وہ من گھڑت جھوٹ ہے۔ جیسے: اے حمیرا ! تو مٹی نہ کھا۔ کیونکہ اس سے فلاں فلاں مرض لاحق ہو سکتا ہے اور تم اپنا نصف دین حمیراء سے حاصل کرو۔‘‘ [3]
لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں ایک حدیث لائے ہیں :
((دَخَلَ الْحَبْشَۃُ یَلْعَبُوْنَ، فَقَالَ لِي النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم : یَا حُمَیْرَاء، أَتُحِبِّیْنَ أَنْ تَنْظُرِيْ إِلَیْہِمْ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ۔)) [4]
’’حبشی کھیلنے کے لیے مسجد میں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’اے حمیرا! کیا تو ان کا کھیل دیکھنا پسند کرتی ہے؟ تو میں نے کہا: جی ہاں ۔‘‘
پھر لکھا:
’’اس روایت کی اسناد صحیح ہیں اور حمیرا کے متعلق میں نے اس حدیث کے علاوہ کوئی صحیح حدیث نہیں دیکھی۔‘‘
۸۔مُوَفقۃ:....توفیق دی گئی۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے القابات میں (موفقہ) بھی ہے اور یہ خطاب انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیا۔
|