Maktaba Wahhabi

660 - 677
سلوک کو بخوبی سمجھتا ہے کہ یہ غیر اخلاقی سرگرمی سے کتنی نفرت کرتی ہے۔ بے شک آدم اور حوا علیہما السلام نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا کر معصیت الٰہی کا ارتکاب تو کر لیا لیکن شدید گھٹن، حد سے زیادہ شرمسار اور شدید افسوس و صدمہ ان کو اس وقت لاحق ہوا جب ان کی شرم گاہیں کھل گئیں ، وہ دونوں ان درختوں کے پتوں سے اپنے ستر ڈھانپنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلْ لَكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُبِينٌ ﴾ (الاعراف: ۲۲) ’’پس اس نے دونوں کو دھوکے سے نیچے اتار لیا، پھر جب دونوں نے اس درخت کو چکھا تو ان کے لیے ان کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں اور دونوں جنت کے پتوں سے (لے لے کر) اپنے آپ پر چپکانے لگے اور ان دونوں کو ان کے رب نے آواز دی، کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا اور تم دونوں سے نہیں کہا کہ بے شک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے۔‘‘ ان کا یہ حال کیوں ہوا؟ اس لیے کہ فطرت سلیمہ جس پر اللہ رب العالمین نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اس کا تقاضا یہی ہے لیکن جب اسی فطرت کو ہی الٹ دیا جائے اور انسان راہ ہدایت سے منحرف ہو جائے تو پھر وہی نتیجہ نکلتا ہے جو روافض کی تصانیف و تقاریر و معتقدات کی قبیح صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں ۔ یہ اللہ رب العالمین کی پیداکردہ مشاہدہ شدہ نشانی ہے اور اللہ تعالیٰ کی معمول کی سنت ہے کہ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب بیوی کی ستر کشی کی کوشش کرتے ہیں وہ ان کی ستر کشی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر یہی عیوب مسلط کر دیتا ہے کہ جن کے ذریعے وہ اللہ کے دوستوں پر اور اس کی مخلوق میں سے اشرف و اعلیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیتے ہیں ۔ اس نے ان کو حرام نکاحوں میں پھنسا دیا اور فسق و فجور سے لبریز ان میں اخلاقی برائیوں پھیلا دی ہیں ، یہ بالکل انھیں ویسی ہی جزا ملی ہے جیسے ان کے اپنے سیاہ کرتوت تھے جن کے ذریعے وہ ام المومنین رضی اللہ عنہا پر طعن و تشنیع کرتے ہیں ۔ وہ ظالم رافضی لکھتا ہے:’’ لوگوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بہت کچھ کہا اور وہ جو کچھ کہتے ہیں سو کہتے ہیں بہرحال کچھ نہ کچھ تو اس کی حقیقت ہو گی کیونکہ آگ کے بغیر دھواں نہیں ہوتا۔‘‘[1] جواب:.... اس ظالم کو کہا جائے گا یہ اس فاسد و خبیث فطرت کا لازمی نتیجہ ہے جو تمہارے ساتھ
Flag Counter