Maktaba Wahhabi

120 - 180
کے چچا نے بھی کہا تھا : وَلَقَدْ عَلِمْتُ بِأَنَّ دِیْنَ مُحَمَّدِ مِنْ خَیْرِ أَدْیَانِ الْبَرِیَّۃِ دِیْنًا لَوْلَا الْمُلَامَۃُ أَوْ حِذْرًا مسبۃ لَوَ جَدتَّنِیْ سُمْحًا بِذَاکَ مُبِیْنًا ’’اور تحقیق دین محمد تمام ادیان سے اچھا دین ہے اگر مجھے ملامت اور گالی کا ڈرنہ ہوتا تو میں واضح طور پر آپ کو اس کو قبول کرتا ہوا نظر آتا۔ ‘‘ اس لیے اگر ایمان صرف عقیدے اور دین کا زبان سے قبول کر لینے کا نام ہوتا توچچا بھی اس کی سچائی کو مانتا تھا لیکن اس کا کچھ فائدہ نہ ہوگا چنانچہ سہل بن عبداللہ التستری فرماتے ہیں کہ ایمان اگر قول سے ہو بغیر عمل کے تو یہ کفر ہے اور اگر قول کے ساتھ نیت بھی اچھی ہو لیکن اتباع رسول نہیں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق عمل نہیں ) تو بدعت ہے اس لیے ایمان کہتے ہیں زبان و دل کے ساتھ اقرار تصدیق کے اور عمل کرنے اور نیت کا خالص ہونا اور اس نیت سے عمل جو سامنے آئے وہ نبوی سنت کے مطابق ہونا۔[1] اسی لیے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہٗ تَبَعًا لِّمَا جِئْتٌ بِہٖ۔)) [2] ’’تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات ا س چیز کے تابع نہ ہو جائیں جسے میں لے کر آیا ہوں (قرآن و سنت)‘‘ تو معلوم یہ ہوا کہ قرآن مجید کے ایمان و تلاوت وتفقہ کا جوفکر ہے جب تک اس کو عمل کالبادہ نہیں پہنچایا جائے گا اس وقت تک تو اس شخص کا ایمان متحقق ہی نہیں ہوتا اس لیے قرآن مجید نے اس کے لیے ایک خاص اصطلاح ’’حکم‘‘ کے لفظ کے ساتھ استعمال کی ہے چنانچہ
Flag Counter