Maktaba Wahhabi

121 - 180
قرآن مجید میں ایک واضح فیصلہ ہے : { وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ.} (المائدۃ:44) ’’جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے (قرآن مجید) اس کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے لوگ کافر ہیں۔ ‘‘ کوئی بھی خیال یا نظریہ جب انسانی فکر میں رچ بس جائے یعنی اس کی رائے اور رائے کے مطابق اس کے دل و دماغ کا فیصلہ (جن دونوں کے ملنے سے ایک حکم سامنے آتا ہے ) حکم بن جائے تو اس کا عمل خود بخود اس کے تابع ہو جاتا ہے۔ مثلاً انسان ایک رائے قائم کرتا ہے کہ میں نے فلاں کے گھر شادی کرنی ہے اس رائے کو پھر دماغ میں جگہ دے کر کھنگا لتا ہے جب دل و دماغ ا س رائے پر متفق ہو جائیں تووہ شخص مطلوبہ رشتہ لینے کے لیے بھاگ دوڑتا ہے اسی طرح قرآن مجید پر عمل ہو ہی اس وقت سکتا ہے جب انسان کا فکر قرآن مجید کے تابع ہو جائے اور قرآن مجید کے بیان کردہ علوم و حقائق انسان کے دل و دماغ دونوں میں جاگزیں ہو جائیں یہی وجہ تھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید پڑھتے تو اس پر عمل کا حتی المقدور اہتمام کرتے اور جب تک ان آیات کے تمام علم و عمل کو اپنے اندر جذب نہ کرلیتے (اور ان کا فکر قرآن کے تابع نہ ہو جاتا ) اس وقت تک آگے قدم نہ بڑھاتے۔ گویا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں حفظ قرآن اور اس کی ترتیل و فہم کا مفہوم ومدعا یہ تھا کہ قرآن مجید ان کی پوری شخصیت میں رچ بس جائے اور اس کا نور ہدایت اور عنصر عملی ان کے رگ و پے حتیٰ کہ جسم کے ریشے ریشے اور گوشے گوشے میں سرایت کر جائے اور نتیجتاً اس قرآن مجید کے الفاظ ان کے حافظے میں اور اس کی اداء ان کی زبان اور فہم و فراست و تعلیمات ان کے اخلاق و عادات و سیرت و کردار میں محفوظ ہو جائیں اور قرآن مجید پر مکمل صحیح معنوں میں ایمان لانے کی تکمیلی اور اتمامی کیفیت سامنے آجائے اور یہی مفہوم اُنھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوال ہوا تو اُنھوں
Flag Counter