Maktaba Wahhabi

133 - 180
ذریعے سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن مجید پہنچے ان سب کو ڈراؤں۔ ‘‘ چنانچہ بعثت کی پہلی گھڑی سے زندگی کی آخری رمق تک اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرض منصبی (تبلیغ) کے لیے انتھک محنتیں و مشقتیں کیں اور مصائب و آلام برداشت کیے اور کوئی بھی فرصت ہاتھ سے نہ جانے دی بلکہ اس کو غنیمت خیال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔ چنانچہ اگر دعوت وتبلیغ کے اس مشن کو غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد کا اصل محور و مرکز قرآن مجید ہی رہا تھا۔ اس کی تلاوت و تبلیغ و تعلیم وتبیین و توضیح میں آپ مسلسل مصروف رہے چنانچہ قرآن مجید تقریباً چار مقامات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق دعوت و تبلیغ اور اصلاح و انقلاب کے لیے مختار منہج کی وضاحت کچھ یوں کرتاہے : {لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ} (آل عمران: 164) ’’بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب (قرآن مجید ) اور حکمت سکھاتا ہے۔ ‘‘ الغرض مذکورہ آیات کا نتیجہ یہ ہے کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ( بلاشبہ وہ قرآن مجید تھا کسی کی فقہ اور دیگر خرافات نہیں تھیں ) بلا کم وکاست اور بلاخوف آپ کو لوگوں تک پہنچانا ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہنچایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃالوداع کے خطبہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے جم غفیر کو فرمایا تھا: ((أَ لَاہَلْ بَلَّغْتُ؟)) ’’کیا میں نے پہنچا دیا ‘‘ تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے جواب دیا:
Flag Counter