Maktaba Wahhabi

40 - 180
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تعظیم دی ہو اور تبجیل کے لائق سمجھا ہو تو اس سے بڑھ کر کیا میزہ ہو سکتا ہے، چنانچہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللّٰہِ إِکْرَامُ ذِی الشَّیْبَۃِ الْمُسْلِمِ وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَیْرَ الْغَالِیْ فِیْہِ وَالْجَافِیْ عَنْہٗ وَإِکْرَامُ ذِی السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ۔)) [1] ’’بوڑھے مسلمان کا احترام اور قاری قرآن جو غلو اور کمی کرنے والا نہ ہو اس کا احترام اور انصاف پسند بادشاہ کااحترام اللہ تعالیٰ کی تعظیم و تبجیل کی علامت ہے۔‘‘ تو جو شخص اسلام میں بوڑھا ہو اس کے سفید بال آجائیں مجالس میں اس کی توقیر اور احترام اور وہ قاری جو افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوتا یعنی نہ تو تکلف میں اتنا غلو کرتا ہے اور نہ ہی اس سے بالکل منہ موڑ لیتا ہے اور وہ بادشاہ جو عدل پسند ہو ان سب کا احترام اللہ تعالیٰ کی تعظیم و تبجیل کی نشانی ہے لیکن آج مسلمان اگر اس کے سفید بال آجائیں تو وہ اپنے آپ کو بوڑھا کہلانے سے شرم کھاتا ہے اور کالے رنگ کے ساتھ اپنا منہ توکالا کرتا ہی ہے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی نافرمانی بھی کرتا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کالے رنگ سے منع کیا ہے۔ [2] اور قاری قرآن کی شان تو پھر ہے ہی عجیب دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کے لیے تو انعامات ہی انعامات ہیں شرط یہ ہے کہ وہ رضائے الٰہی کا متلاشی ہو اور غلو نہ کرے افراط و تفریط کا شکار نہ ہو یہ نہیں کہ فرضی نمازیں بھی پڑھے تو تاخیر کے ساتھ اور گھر میں پڑھے تو وہ قاری قرآن نہیں۔ نا ہی ان کو قرآن کا حفظ کچھ فائدہ دے گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو شخص آئے اور مجھے لے کر چلے گئے آخر میں ان کے ساتھ چلا اور ایک ایسے شخص پر آئے جو لیٹا ہوا تھا اور ایک شخص پتھر لے کر کھڑا تھا اور اس کے
Flag Counter