Maktaba Wahhabi

26 - 89
علیہم اجمعین مختلف ممالک میں پھیلے تو انہوں نے حسبِ طاقت اور بقدر علم اس عملِ دعوت کو جاری رکھا۔ جب داعیانِ الیٰ اللہ کی کمی ،برائیوں کی کثرت اور جہالت کا زور ہوجیسا کہ موجودہ دور کی حالت ہے تو دعوت کا کام ہر ایک پر بقدرِ استطاعت فرض ہے۔ جب مقام ایسا ہو مثلاً شہر یا قبضہ وغیرہ ہے اور وہاں ایسے اشخاص موجود ہوں اور دعوت وتبلیغ کی ذمہ داری نبھارہے ہوں اور کافی حد تک اس کام میں مصروف ہوں تو ان کے علاوہ دیگر عوام پر یہ کام سنّت کی حد تک رہ جاتا ہے۔کیونکہ دوسرے کے ہاتھوں حجت قائم اور اللہ کا حکم و دین نافذ ہوچکا ہے۔لیکن اللہ کی باقی ماندہ زمین اور بقیّہ لوگوں کی نسبت علماء اُمّت ذمہ دار افرادا ور رؤساء وحکّام پر حسبِ ہمّت وطاقت واجب ہے کہ وہ بھی اللہ کے دین کی تبلیغ واشاعت میں اپنی توانائیوں کو بروے کار لائیں کیونکہ طاقت وقدرت کی حد تک یہ تبلیغ ان پر فرض ِ عین ہے۔ ان سطورِ بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کا فرضِ عین اور فرض ِ کفایہ ہونا ایک نسبتی امر ہے جو مختلف نسبتوں کی وجہ سے مختلف ہوجاتا ہے۔پس اقوام واشخاص کی نسبت سے دعوت کا کام ان کا فرض ِ عین ہے۔اور اشخاص واقوام کی نسبت سے ہی ان کے لیے اس وقت سنّت ہے جب ان کے مقام وعلاقہ میں کوئی ایسا شخص موجود ہو جو اس فریضہ کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف ہو،تو وہ اُن سے کفایت کرگیا۔ حکّام اور وسیع قدرت واستطاعت رکھنے والے افراد( افسران) پر یہ زیادہ واجب ہے اور ان کار فرض ہے کہ وہ دینِ الٰہی کی تبلیغ کریں اور دعوت کے دائرہ کو حسب الامکان ہر اُس علاقے اور ملک تک وسیع کریں جہاں تک انکار اثر ورسوخ اور بس چلتا ہے۔اِس کے لیے وہ ہر ممکن طریقہ اختیار کریں اور لوگ جتنی بھی زندہ زبانیں بولتے ہیں ان سب کو استعمال میں
Flag Counter