Maktaba Wahhabi

58 - 89
لوگوں میں نہیں ہونا چاہیے جو ایک کام کی طرف دعوت تو دیتے ہیں مگر خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے، اور ایک چیز سے لوگوں کو روکتے ہیں مگر خود اس کے مرتکب ہوتے ہیں ۔یہ خسارہ پانے والوں کا حال ہے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ مگر نفع وفائدہ اٹھانے والے مؤمنین ایسے داعیان ِ حق ہیں جوخود پیکرِ عمل وکردار ہوتے ہیں ،عمل میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں اور کشاں کشاں اُسی طرف کِھچے چلے آتے ہیں اور جن امور سے وہ لوگوں کو باز کرتے ہیں وہ خودان سے دور بھاگتے اور احتراز کرتے ہیں ۔چناچہ ارشادِ ربُّ العزت ہے: {یَٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَo کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَo} (سورۃ الصف:۲۔۳) ’’اے ایمان والو!تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے؟یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے کہ تم ایسی بات کہو جس پر تم خود عمل پیرا نہیں ہو۔‘‘ یہودیوں کے لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور خود اس پر عمل پیرا نہ ہونے پر سرزنش کرتے ہوئے اللہ سُبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: {اَتَاْ مُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتَابَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَo} (سورۃ البقرہ:۴۴) ’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو ؟حالانکہ تم کتابُ اللہ کی تلاوت بھی کرتے ہو۔کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔‘‘ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((یُوْتیٰ بِالرَّجُل یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ فَتَنْدَلِقُ اَقْتَابَ
Flag Counter