Maktaba Wahhabi

11 - 389
النبذ في أصول الفقه الظاهری‘ اور’إبطال القیاس والرأی والاستحسان و التقلید والتعلیل‘ کا تذکرہ ملتا ہے؛ ان کتابوں میں اہل ظاہر کے اجتہادی اصولوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ زیر نظر مقالہ میں امام ابن حزم رحمہ اللہ اور جمہورعلما کے تصور اجتہاد کا تقابلی جائزہ پیش کیا جائے گا تاکہ ان کی امتیازی خوبیاں نکھر کر سامنے آسکیں اور عصر حاضر کے اجتہادی عمل میں ان سے استفادہ کی راہ ہموار ہوسکے۔ موضوع کی ضرورت و اہمیت (Significance & Importance) نوبہ نو مسائل زیست کے حل و کشود کے لیے اجتہاد کی ضرورت اگرچہ ہر دور میں رہی ہے اور ارباب علم اسے بہ رو ے کار لا کر مختلف امور سے متعلق شرعی رہ نمائی مہیاکرتے رہے ہیں تاہم فی زمانہ اجتہاد کی جس قدر احتیاج ہے، شاید اسلامی تاریخ کے کسی عہد میں نہیں رہی۔سیاست و معیشت اورتمدن و معاشرت سے لے کر سائنس وٹکنالوجی تک کتنے ہی گوشہ ہاے حیات ایسے ہیں جن میں جدید ترقیوں کی بہ دولت بے شمار ایسے مسائل سامنے آئے ہیں جو ہمارے قدیم فقہی ذخیرے میں بہ صراحت مذکور نہیں ہیں اور ن کے حل کے لیے اجتہاد ناگزیر ہے۔ پھر جدید سائنسی اکتشافات اور ذرائع ابلاغ کی بنا پر آج دنیا ایک ’عالمی گاؤں‘ (Global village)کی حیثیت اختیار کر چکی ہےجس کی وجہ سے مختلف خطوں کے لوگ ایک دوسرے کے طرزِزندگی اور انداز معاشرت سے متاثر ہورہے ہیں؛ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کے مسائل میں بہت حد تک اشتراک و یک سانیت نظر آتی ہے؛اسی سبب سے ارباب علم و نظر کی جانب سے ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اب ایک’ آفاقی فقہ‘ (Cosmopoliton Fiqh)کی تشکیل ہونی چاہیے جس میں تمام فقہی و اجتہادی مکاتب فکر سے استفادہ کیا جائے اور انفرادی و اجتماعی سطح پر درپیش مسائل کے ایک جامع حل تک پہنچنے کی سعی کی جائے؛ظاہر ہے کہ آفاقی فقہ کے اصول بھی جامعیت اور آفاقیت کے حامل ہونے چاہئیں؛اسی کے پیش نظر زیر نظر مقالہ میں امام ابن حزم رحمہ اللہ اور جمہوراہل علم کے تصور اجتہاد کا موازنہ کیا جائے گا تاکہ باہمی تقابل کے ذریعے نمایاں پہلوؤں سے استفادہ کیا جاسکے اور اجتہاد کے عمل کو زیادہ مفید، موثر اور نتیجہ خیز بنایا جاسکے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ کے تصور اجتہاد کا مطالعہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ نصوصِ کتاب و سنت کے ظاہری الفاظ پر زور دیتے ہیں اور ان کی علل اور حکمتوں کی تلاش و جستجو کے سخت مخالف ہیں۔یہ امر انتہائی دل چسپی کا باعث ہے کہ نصوص کی علت و حکمت کی تعیین کے بغیرجدید مسائل کاحل کیوں کر تلاش کیا جاسکتا ہے؟جب کہ جمہور کے تصور اجتہاد میں تعلیل اور تعین حکمت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ ابن حزم نے اس باب میں اس قدر شدت کا مظاہرہ کیا ہےکہ انھیں عمومی طور پر حرفیت پسند گردانا جاتا ہے جو عقل و فکر کے کواڑ بند کرکے محض نصوص کے ظاہر سے تمسک کا پرچارک ہے؛بعض علما نے تو یہاں تک کہ دیا ہے کہ ابن حزم سرے سے اجتہاد ہی کے منکر ہیں لیکن یہ تاثر مبنی بر حقیقت نہیں ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ ابن حزم اجتہاد کے قائل ہیں تاہم وہ قیاس وراے پر مبنی اجتہاد کو تسلیم نہیں کرتے بل کہ اسے دلیل کے اصول سے ثابت کرتے ہیں؛وہ
Flag Counter