Maktaba Wahhabi

20 - 42
دنیائے فانی کو خیرباد کہہ گئے۔چنانچہ امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اُن سے ’’جنگ‘‘ کرنے کا اعلان کیا تو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عموماً اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خصوصاً یہ بات کہی کہ ’’اے ابوبکر!آپ اُن کے خلاف کیسے لڑ سکتے ہیں جو لا اِلٰہ اِلا اللہ کہتے ہیں‘‘؟ امیر المؤمنین نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم!میں تو ان کے خلاف بھی لڑوں گا جو زکوٰۃ کے اونٹ کی نکیل روک لے گا۔بعد میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا سینہ بھی اللہ تعالیٰ نے کھول دیا اور وہ بھی امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمنوا ہو گئے۔حالانکہ قوت و طاقت کا موازنہ اگر کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدنا عمر فاروق سے کم ہیں اسی لئے تو چھپ چھپ کر ہجرت مدینہ کر رہے ہیں،لیکن جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہجرت کرتے ہیں تو مشرکین مکہ کو للکارتے ہیں ’’جسے اپنے بچے یتیم کروانے کا شوق ہو،اپنی بیوی کو بیوہ کرنے کا شوق ہو،وہ آئے اور میرا راستہ روکے،میں ہجرت کر کے مدینہ جا رہا ہوں‘‘۔ ہاں!سیدنا عمر فاروق کا گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہائش مدینہ سے دور تھا۔اُنہوں نے اپنے انصار بھائی کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ ایک دن تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارو اور ایک دن میں گزاروں گا۔جس دن میں جاؤں اس دن کی احادیث نبوی میں آپ کو سناؤں گا اور جس دن تم جاؤ اس دن کی احادیث تم مجھے سنانا۔لیکن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ جس دن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی،ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اُسی دن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کرتے رہے،اور کبھی ناغہ نہیں کیا،اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے نہیں یاد،جب سے میں نے ہوش سنبھالا،کہ کوئی دن ایسا بھی آیا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد (ابوبکر صدیق) کے گھر تشریف نہ لائے ہوں۔ چنانچہ امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے علم کے ذریعے طاقت و قوت کی کمی پر قابو
Flag Counter