پہلا مسئلہ اب نظری نہیں رہا بلکہ یہ بات مشاہدہ اور تجربہ کی سطح پر ثابت ہوچکی ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مطلع کا اختلاف پایا جاتا ہے، اس لیے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بعض مقامات ایسے ہیں جن کے درمیان بارہ بارہ گھنٹوں کا فرق ہے۔ عین اس وقت جب ایک جگہ دن اپنے شباب پر ہوتا ہے تو دوسری جگہ رات اپنا آدھا سفر طے کرچکی ہوتی ہے۔ ٹھیک اس وقت جب ایک مقام پر ظہر ہوتی ہے، دوسری جگہ مغرب کا وقت ہوچکا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ان حالات میں ان کا مطلع ایک ہو ہی نہیں سکتا۔ فرض کیجیے کہ جہاں مغرب کا وقت ہے، اگر و ہاں چاند نظر آئے تو کیا جہاں ظہر کا وقت ہے وہاں بھی چاند نظر آجائے گا یا اس کو مغرب کا وقت تسلیم کرلیا جائے گا…؟
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس مطلع کا اختلاف معتبر بھی ہوگا یا نہیں؟ احناف کا مشہور مسلک یہی ہے کہ اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں ہے، یعنی اگر مشرق کے کسی خطے میں چاند نظر آیا تو وہ مغربی خطوں کے باشندوں کے لیے بھی حجت ہوگا اور یہی رؤیت ان کے لیے عیدین و رمضان ثابت کرنے کو کافی ہوگی۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور کچھ دوسرے فقہاء کے یہاں اس اختلافِ مطالع کا اعتبار ہے اور ان کے یہاں ایک مقام کی رؤیت دوسرے مقام کے لیے بھی رؤیت اور چاند دیکھے جانے کی دلیل نہیں ہے۔ وہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما کی جس روایت کو وہ اپنی دلیل بناتے ہیں وہ ان کے نقطۂ نظر کے لیے صریح اور دو ٹوک نہیں ہے، البتہ یہ بات بہت واضح ہے کہ نمازوں کے اوقات میں سبھی اختلافِ مطالع کا اعتبار کرتے ہیں۔ اگر ایک جگہ ظہر یا عشاء کا وقت ہوچکا ہو اور دوسری جگہ نہ ہوا ہو تو جہاں وقت نہ ہوا ہو وہاں کے لوگ محض اس بنا پر ظہر و عشاء کی نماز ادا نہیں کر سکتے کہ دوسری جگہ ان نمازوں کا وقت
|