Maktaba Wahhabi

158 - 379
کی بنیاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم ولادت ہے۔ یہودی سن فلسطین پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخت نشینی کے ایک پر شوکت واقعے سے وابستہ ہے۔ بکرمی سن راجہ بکرما جیت کی پیدائش کی یادگار ہے، رومی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو واضح کرتا ہے لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوت کے ایسے واقعے سے وابستہ ہے جس میں یہ سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان اعلائے کلمۃ الحق کے نتیجے میں تمام اطراف سے مصائب و آلام میں گھر جائے، بستی کے تمام لوگ اس کے دشمن اور درپے آزار ہو جائیں، قریبی رشتہ دار اور خویش و اقارب بھی اس کو ختم کرنے کا عزم کر لیں، اس کے دوست احباب بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا کر دیے جائیں، شہر کے تمام سربر آوردہ لوگ اسے قتل کرنے کا منصوبہ باندھ لیں، اس پر عرصۂ حیات ہر طرح سے تنگ کر دیا جائے اور اس کی آواز کو جبرًا روکنے کی کوشش کی جائے تو اس وقت وہ مسلمان کیا کرے؟ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز نہیں کیا کہ کفروباطل کے ساتھ مصالحت کر لی جائے، تبلیغ حق میں مداہنت اور رواداری سے کام لیا جائے اور اپنے عقائد و نظریات میں لچک پیدا کر کے ان میں گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور ٹوٹ جائے۔ بلکہ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز کیاہے کہ ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کر کے وہاں سے ہجرت اختیار کر لی جائے۔ چنانچہ اسی واقعۂ ہجرتِ نبوی پر سن ہجری کی بنیاد رکھی گئی ہے جو نہ تو کسی انسانی برتری اور تَفَوُّق کو یاد دلاتا ہے اور نہ شوکت و عظمت کے کسی واقعے کو بلکہ یہ واقعۂ ہجرت مظلومی اور بے کسی کی ایک ایسی یادگار ہے کہ جو ثبات قدم، صبرو استقامت اور راضی برضائے الٰہی ہونے کی ایک زبردست مثال اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے۔ یہ واقعۂ ہجرت بتلاتا ہے کہ ایک مظلوم و بے کس انسان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہو سکتا ہے اور مصائب و آلام سے نکل کر کس طرح کامرانی و شادمانی کا زریں تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے اور پستی و گمنامی
Flag Counter