گے تو میری امت پر وہ وقت آجائے گا جس کا وعدہ ان سے کیا جاتاہے۔‘‘[1]
اس حدیث میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے وجود کو امت کے لیے حفاظت اور خیرو برکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا:
’یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ، یَغْزُوفِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ، فَیُقَالُ لَہُمْ: فِیکُمْ مَّنْ رَأٰی رَسُولَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَہُمْ، ثُمَّ یَغْزُوفِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ، فَیُقَالُ لَہُمْ: ہَلْ فِیکُمْ مَّنْ رَأٰی مَنْ صَحِبَ رَسُولَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَہُمْ، ثُمَّ یَغْزُوفِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ، فَیُقَالُ لَہُمْ: (ہَلْ) فِیکُمْ مَّنْ رَأٰی مَنْ صَحِبَ مَنْ صَحِبَ رَسُولَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَہُمْ‘
’’ایک وقت آئے گا، کچھ لوگو ں کی ایک جماعت جہاد کرے گی، ان سے پوچھا جائے گا: تم میں کوئی ایسا شخص (صحابی) ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے؟ لوگ کہیں گے: ہاں، پس (اس ایک صحابی کی صلاح و فضیلت سے) ان کو فتح عطا کر دی جائے گی، پھر کچھ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کرے گی، ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی شخص (تابعی) ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کو دیکھا ہے؟ لوگ کہیں گے: ہاں، پس ان کو (اس تابعی کی صلاح و فضیلت سے) فتح عطا کر دی جائے گی، پھر کچھ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کرے گی، ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص (تبع تابعی) ہے جس نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے صحابی ٔ رسول کو دیکھا ہے؟ لوگ کہیں گے: ہاں،
|