کے دوران میں ہونے والی کمی کوتاہی یا لغزش کے ازالے اورناداروں اور حاجت مندوں کو سامان خورو نوش فراہم کرنے کے لیے فرض کیا گیا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
’فَرَضَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُھْرَۃً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَۃً لِّلْمَسَاکِینِ‘
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر روزے دار کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کے کھانے کا انتظام کرنے کے لیے فرض قرار دیا ہے۔‘‘[1]
صدقۂ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے، چاہے وہ بڑا ہے یا چھوٹا، مرد ہے یا عورت، آزاد ہے یا غلام۔ اس کی مقدار ایک صاع (تقریباً سوا دو کلو) ہے اور اس کی ادائیگی نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہونی چاہیے۔
امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’فَرَضَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِّنْ تَمْرٍ أَوْصَاعًا مِّنْ شَعِیرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ، وَالذَّکَرِ وَالأُْنْثٰی، وَالصَّغِیرِ وَالْکَبِیرِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، وَأَمَرَ بِھَا أَنْ تُؤَدّٰی قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاۃِ‘
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر فرض قرار دیا ہے جو ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہے یہ مسلمانوں میں سے غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے سب پر فرض ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگوں کے نماز عید کی طرف نکلنے
|