Maktaba Wahhabi

46 - 80
اذان نہ دینا۔‘‘ امام مالک اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’أَنَّہُ سَمِعَ غَیْرَ وَاحِدٍ مِنْ عُلْمَائِہِمْ یَقُوْلُ: ’’لَمْ یَکُنْ فِيْ عِیْدِالْفِطْرِ، وَلَا فِيْ الْأَضْحٰی نِدَائٌ، وَلَا إِقَامَۃٌ مُنْذُ زَمَانِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم إِلَی الْیَوْمِ۔‘‘[1] ’’انھوں نے اپنے کئی ایک علماء سے سنا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک عید الفطر اور عید الاضحی میں نہ اذان ہے اور نہ اقامت۔‘‘ اس کے بعد امام مالک رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں: ’’وَتِلْکَ السُّنَّۃُ الَّتِيْ لَا اِخْتَلَافَ فِیْہَا عِنْدَنَا۔‘‘[2] ’’اور یہ ایسی سنت ہے، کہ اس کے بارے میں ہمارے ہاں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘ ج: اذان و اقامت کے علاوہ نمازِ عیدین کے لیے کوئی اور ندا یا بلاوہ دینا بھی سنت سے ثابت نہیں۔ امام مسلم نے عطاء سے روایت بیان کی ہے، کہ انھوں نے کہا، کہ: ’’مجھے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، کہ: ’’أَنْ لَّا أَذَانَ لِلصَّلَاۃِ یَوْمَ الْفِطْرِ حِینَ یَخْرُجُ الْإِمَامُ، وَلَا بَعْدَ مَا یَخْرُجُ، وَلَا إِقَامَۃَ، وَلَا نِدَآئَ، وَلَا شَيْئَ، لَا نِدَآئَ یَوْمَئِذٍ، وَلَا إِقَامَۃَ۔‘‘[3]
Flag Counter