Maktaba Wahhabi

68 - 80
اگر انتیس رمضان کی شام کو شوال کا چاند بوجہ بادل دیکھا نہ جاسکے اور اگلے دن لوگ تیس رمضان سمجھ کر روزہ رکھ لیں۔ پھر قرب و جوار سے گزشتہ شب چاند نظر آنے کی موثوقہ اطلاع مل جائے، تو لوگ روزہ افطار کرلیں، البتہ نماز کی ادائیگی کے وقت کے متعلق حسبِ ذیل تفصیل پیشِ نظر رکھی جائے: ا: خبر کا بعد از زوال آنا: ایسی صورت میں نمازِ عید اس کے اگلے دن ادا کریں۔ امام احمد نے حضرت ابوعمیر بن انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، کہ انھوں نے کہا، کہ: ’’میرے چچاؤں نے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصاری ساتھیوں میں سے تھے، مجھے یہ حدیث بتلائی: ’’غُمَّ عَلَیْنَا ھِلَالُ شَوَّالٍ۔ فَأَصْبَحْنَا صِیَامًا، فَجَائَ رَکْبٌ مِنْ آخِرِ النَّھَارِ، فَشَہِدُوْا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم أَنَّہُمْ رَأَوْا الْھِلَالَ بِالْأَمْسِ۔ فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم أَنْ یُفْطِرُوْا مِنْ یَوْمِہِمْ، وَأَنْ یَخْرُجُوْا لِعِیْدِہِمْ مِنَ الْغَدِ۔‘‘[1] ’’شوال کا ہلال ابر کی وجہ سے دکھائی نہ دیا۔ ہم نے(دوسرے دن کی) صبح کو روزہ رکھ لیا۔ پھر دن کے آخر میں سواروں کی ایک جماعت آئی اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو یہ گواہی دی، کہ انھوں نے کل چاند دیکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا، کہ وہ روزہ کھول دیں اور اگلے دن نماز عید کے لیے نکلیں۔‘‘ بعض علمائے امت کی رائے اس سے مختلف ہے۔ امام خطابی ان کی رائے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’قُلْتُ: ’’سُنَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم أَوْلیٰ، وَحَدِیْثُ أَبِيْ عُمَیْرٍ
Flag Counter