Maktaba Wahhabi

25 - 93
کے وہ جال ہیں جو شیطان نے مخلوق خدا کو صراط مستقیم سے گمراہ کرنے کے لئے پھیلا رکھے ہیں ۔ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے عقیدۂ شرک کی مثال ایک ایسے خبیث درخت کے ساتھ دی ہے جس کی جڑیں نہ جسے استحکام حاصل ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿وَمَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِ نِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقَ اْلاَرْضِ مَالَھَا مِنْ قَـرَارٍ﴾ ترجمہ:’’کلمہ خبیثہ ‘‘(شرک)کی مثال ایک ایسے بدذات درخت کی سی ہے جو زمین کی بالائی سطح سے ہی اکھاڑ پھینکا جاتا ہے اور اس کے لئے کوئی استحکام نہیں ہے ۔ (سورہ ابراہیم آیت :۲۶) مذکورہ آیت کریمہ سے درج ذیل تین باتیں واضح ہوتی ہیں : (الف)چونکہ کائنات کی کوئی چیز عقیدہ شرک کی تائید نہیں کرتی اس لئے اس شجر خبیثہ کی کہیں بھی جڑیں نہیں بننے پاتیں اورنہ اسے کہیں نشوونما کے لئے سازگار ماحول میسر آتا ہے ۔ (ب)اگر کبھی طاغوتی قوتوں کی سرپرستی میں یہ درخت اگ بھی آئے تو اس کی جڑیں زمین کی صرف بالائی سطح تک رہتی ہیں جسے شجرہ طیبہ کا معمولی سا جھونکا بھی آسانی کے ساتھ بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکتا ہے اس لئے اسے کہیں قرار اور استحکام نصیب نہیں ہوپاتا۔ (ج)شرک چونکہ خو د ایک خبیث اور بد ذات درخت کی مانند ہے لہٰذا اس کے برگ وبار اور پھل پھول بھی اسی طرح خبیث اور بد ذات ہیں جو ہر آن معاشرے میں اپنا زہر اور بدبوپھیلاتے رہتے ہیں ۔ مذکورہ بالا نکارت کے پیش نظر یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ دنیا میں شر اور فساد فی الارض کی تمام مختلف صورتیں مثلاً قتل وغار ت گری ‘خونریزی ‘دہشت گردی ‘نسل کشی ‘تفاخر‘لوٹ کھسوٹ‘حق تلفی ‘دھوکہ دہی ‘ظلم وستم ‘معاشی استحصال ‘مدامنی وغیرہ سب کا بنیادی سبب یہی شجرہ خبیثہ یعنی عقیدہ شرک ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر ایک نظر وطن عزیز پر ڈالی جائے تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ہمارے سیاسی مذہبی‘اخلاقی ‘معاشرتی‘سرکاری اور غیرسرکاری تمام معاملات میں بگاڑ کی اصل وجہ یہی شجرہ خبیثہ ‘عقیدۂ شرک ‘ہے اس لئے ہمارے نزدیک ملک کے اندر اس وقت تک کوئی بھی اصلاحی یا انقلابی جدوجہد بارآور نہیں ہوسکتی جب تک
Flag Counter