Maktaba Wahhabi

61 - 93
۲۔ہمارے صنم کدے کسی ملک کے تعلیمی ادارے اس قوم کا نظریہ اور عقیدہ بنانے یا بگاڑنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ہمارے ملک اور قوم کی یہ بدنصیبی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں دی جانے والی تعلیم ہمارے دین کی بنیاد عقیدہ توحید سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی اس وقت ہمارے سامنے دوسری ‘تیسری ‘چوتھی ‘پانچویں ‘چھٹی‘ساتویں ‘اور آٹھویں جماعت کی اردو کی کتب موجود ہیں‘جن میں حضرت علی علیہ السلام حضرت فاطمہ علیہاالسلام [1] حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللہ ‘حضرت بابا فرید شکر گنج رحمہ اللہ ‘حضرت سخی سرور رحمہ اللہ ‘حضرت سلطان باہو رحمہ اللہ ‘حضرت پیر بابا کوہستانی رحمہ اللہ ‘ اور حضرت بہاؤالدین زکریا پر مضامین لکھے گئے ہیں ‘حضرت فاطمہ رضی اﷲعنہا پر لکھے گئے مضمون کے آخر میں جنت البقیع (مدینہ کا قبرستان)کی ایک فرضی تصویر دے کر نیچے یہ فقرہ تحریر کیا گیا ’’جنت البقیع (مدینہ منورہ)جہاں اہل بیت کے مزار ہیں‘‘---جن لوگوں نے جنت البقیع دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ سارے قبرستان میں ’’مزار‘‘تو کیا کسی قبر پر پکی اینٹ بھی نہیں رکھی گئی ’’اہل بیت کے مزار‘‘لکھ کر مزار کو نہ صرف تقدس اور احترام کا درجہ دیا گیا ہے بلکہ اسے سند جواز بھی مہیا کیا گیا ہے ‘ان سارے مضامین کو پڑھنے کے کے بعد دس بارہ سال کے خالی الذہن بچے پر جو اثرات مرتب ہوسکتے ہیں وہ یہ ہیں ۔ ۱۔بزرگوں کے مزار اور مقبرے تعمیر کرنا ‘ان پر عرس اور میلے لگانا ‘ان کی زیارت کرنا نیکی اور ثواب کا کام ہے ۔ ۲۔بزرگوں کے عرسوں میں ڈھول تاشے بجانا ‘رنگ دار کپڑے کے جھنڈے اٹھاکر چلنا بزرگوں کی عزت اور احترام کا باعث ہے ۔ ۳۔بزرگوں کے مزاروں پر پھول چڑھانا ‘فاتحہ پڑھنا ‘چراغاں کرنا ‘کھانا تقسیم کرنا او روہاں بیٹھ کر عبادت کرنا نیکی اور ثواب کا کام ہے ۔ ۴۔مزاروں اور مقبروں کے پاس جاکر دعا کرنا قبولیت دُعا کا باعث ہے۔
Flag Counter