Maktaba Wahhabi

109 - 110
دوں گا۔میں جواب دیتا تھا:بھئی!مجھے تم یہیں سمجھا دو،وہ لاجواب ہو جاتے۔پھر خلوت میں مجھ سے کہتے:بھائی استاد کو کیوں تنگ کریں ؟ امتحان میں دس پانچ نمبر ہی معقولات کے کافی ہیں،ا صل امتحان میں تفسیر و حدیث کی کامیابی ہے۔میں نے کہا:میں اس لیے نہیں پڑھتا کہ ہر کتاب کے تھوڑے بہت نمبر آجائیں،بلکہ اس لیے پڑھتا ہوں کہ اچھی طرح سمجھ لوں اور کل کسی کو پڑھانا ہو تو اچھی طرح پڑھا سکوں۔الحمد ﷲ اسی طرح میں مسائل کو سمجھ سمجھ کر پڑھتا رہا۔میرے محترم استاد کبھی کبھی سمجھنے کے لیے سوالات کرنے پر خفا ہو جاتے اور کہتے کہ تیرے دماغ میں گوبر بھرا ہو ا ہے اور کبھی کہتے کہ گوہ بھرا ہے۔ الغرض سوالات پر بھی خفا ہو جاتے،لیکن میں یہ سمجھ کر کہ میرے محترم استاد ان مسائل کے حل کرنے میں ماہر و قادر ہیں تو میں ان سے حل کروا کے اپنی تشفی کیوں نہ کر لوں،چونکہ مسائل کو سمجھ کر پڑھا کرتا تھا،اس لیے مجھے کوئی ڈر نہ تھا۔کوئی بھی آئے اور سوال کرے تو میں پوری طرح مسائل کو سمجھا دوں گا۔ اتفاق سے ایسا ہوا کہ اسی دوران میں دس بجے کے وقت دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں لاہور اورینٹل کالج کے پروفیسر سید طلحہ رحمہ اللہ تشریف لائے،انھوں نے مدرسے میں قدم رکھتے ہی صرف اس درس گاہ میں بیٹھنا پسند کیا جس میں معقولات پڑھائی جاتی ہوں،چنانچہ مولانا عبدالسلام درانی کی درس گاہ میں تشریف لائے۔مولانا نے اٹھ کر تعظیم کی اور ہم لوگ بھی اٹھ گئے۔سلام و کلام کے بعد آپ نے فرمایا:میں آپ کے معقولات کا درس سننا چاہتا ہوں۔ مولانا عبدالسلام درانی نے شرح مواقف کا درس دینا شروع کر دیا۔
Flag Counter