(جنہیں تطوع بھی کہا جاتاہے) کی کئی اقسام ہیں مثلاً: 1۔ فرض رکعات کے ساتھ سنتیں اور نوافل۔ فرض رکعات کے ترک سے کفر لازم آتا ہے۔ مثلاً فجر کی فرض رکعات دوہیں۔ ظہر کی چار، عصر کی چار، مغرب کی تین اور عشاء کی چار۔ اب ان رکعات پر جو اضافہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تطوعا کیا، وہ ہمارے لیے سنت رکعات ہیں۔ مثلاً فجر کی نماز سے پہلے دورکعات سنت یا ظہر سے پہلے چار اور بعد میں دورکعت سنت وغیرہ۔ پھر ان فرض اور سنت رکعات پر مزید رکعات کا تطوعا اضافہ ہوا اسے نفل کہتے ہیں۔ مثلاً ظہر کے آخر میں دورکعت ، مغرب کے بعد دو رکعت نفل اورعشاء میں چار رکعات نوافل ہیں۔ 2۔ یہ پانچ نمازیں تو ہر عاقل بالغ، مرد، عورت پر فرض ہیں۔ پھر کچھ نمازیں ایسی ہیں جو ہیں تو فرض مگر ہر ایک پر نہیں۔ انہیں فرض کفایہ کہتے ہیں۔مثلاً نماز جمعہ اور نماز جنازہ اور کچھ نمازیں ایسی ہیں جوسنت ہیں مثلاً تہجد کی نماز، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو فرض تھی مگر امت کے لیے سنت مؤکدہ ہے۔ پھر کچھ نمازیں نفل کی حیثیت رکھتی ہیں مثلاً چاشت اور اوابین اور شکرانہ کے نوافل جن کا کوئی وقت مقرر نہیں اور کچھ نمازیں ایسی ہیں جن کا تعلق صرف حالات سے ہوتا ہے۔ مثلاً نماز استسقاء نماز خسوف اور کسوف وغیرہ۔ اب دیکھیے فرض نمازوں اور بالخصوص فرض رکعات کا تارک کافر ہے۔ فرض کفایہ اور سنت موکدہ کا تارک گنہگار ہوتا ہے اور نوافل کی عدم ادائیگی سے کچھ بھی نہیں بگڑتا لیکن ادائیگی کے فائدے ضرور ہیں۔ ایک فائدہ تویہ ہوتا ہے کہ فرائض کی کمی ان سے پوری کردی جاتی ہے، دوسرے نوافل میں کثرت ترقی درجات کا سبب بنتی ہے۔ |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |