باب نمبر:2اسلام میں فاضلہ دولت ہمارا موضوع یہ ہے کہ آیا ایک مسلمان اپنے پاس فاضلہ دولت رکھ سکتا ہے یا نہیں ؟ بالفاظ دیگر یہ سوال یوں ہوگا کہ آیا اسلام میں دولت مند بننے یا بنے رہنے کا جواز ہے؟ اس سوال کا جواب مندرجہ بالا تمہیدی تصریحات کی روشنی میں نہایت آسانی سے یوں دیا جاسکتا ہے کہ جہاں تک جواز کے فتویٰ کا تعلق ہے تو یہ جواز ضرور موجود ہے اگرچہ فضائل اعمال کے لحاظ سے یہ کمتر درجہ ہے۔ موجودہ دور میں اس مسئلہ نے ایک اختلافی اور پیچیدہ سی صورت اختیار کرلی ہے اور اس کی وجوہ دو ہیں۔ ایک تو یہ کہ اشتراکیت سے متاثر حضرات فاضلہ دولت کو اپنے پاس رکھنا جائز ہی نہیں ،گناہ سمجھتے ہیں اور اپنے اس موقف کا زور وشور سے پرچار کر رہے ہیں ۔ وہ اس سلسلہ میں حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کا موقف پیش کرتے ہیں جو فاضلہ دولت کو اپنے پاس رکھنا حرام سمجھتے تھے۔ دوسری وجہ ایسے مسلمانوں کا طرزعمل ہے جو فاضلہ دولت کے جواز سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں ۔دولت کی محبت ان کے دلوں میں گھر چکی ہے ۔انہوں نے فرضی زکوۃ کے علاوہ ترغیبی صدقات پر عمل کرنا یکسر ترک کردیا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ وہ فرضی زکوٰۃ کے علاوہ کچھ دینا جرم سمجھتے ہیں تو یہ بھی بےجانہ ہوگا بلکہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ایسی بھی ہے جو زکوٰۃ تک بھی ادا کرنے کی روادار نہیں۔حیرانی کی بات ہے کہ نماز کے نوافل کے سلسلہ میں آج کا مسلمان بھی بہت حد تک دلچسپی رکھتا ہے۔ |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |