سے زیادہ رہے ہیں تو اس کا جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیا کہ ’’ میں ان کو اس مقام کی بنا پر زیادہ دے رہا ہوں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک انہیں حاصل تھا۔ جو شخص اس سلسلہ میں مجھ پراعتراض کرتا ہے وہ ام سلمہ جیسی ماں لائے۔ میں اس کی بات مان لوں گا۔‘‘ 2۔ دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا وظیفہ چار ہزار درہم مقرر کیا تو اس پر خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اعتراض کردیا ’’کہ آپ رضی اللہ عنہ نے میرے لیے تین ہزار مقرر کیے ہیں اور اسامہ رضی اللہ عنہ کے لیے چارہزار۔ حالانکہ میں ایسے معرکوں میں بھی شریک رہا جن میں اسامہ رضی اللہ عنہ شریک نہ ہوسکے تھے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو یہ وجہ بتائی کہ ’’ اسامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے زیادہ محبوب تھا اور اسامہ رضی اللہ عنہ کا باپ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے باپ سے زیادہ محبوب تھا۔‘‘ مندرجہ بالا معلومات کا ماخذ اسلام میں عدل اجتماعی ( مصنفہ سید قطب شہید) مترجم نجات اللہ صدیقی(صفحہ475۔476) ہے۔ ان معلومات میں سے بعض کی تو بخاری سے بھی توثیق ہوجاتی ہے۔ مثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بدری صحابہ کے لیے پانچ ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی باب بلاعنوان) اور بعض جگہ اختلاف کیا ہے۔ مثلاً بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین اولین کا وظیفہ پانچ ہزار کے بجائے چار ہزار درہم |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |