Maktaba Wahhabi

65 - 197
’’میری والدہ آئی ہیں اور وہ چاہتی ہیں، کہ میں اُن کے ساتھ صلہ رحمی کروں۔ کیا میں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں، اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔‘‘ لیکن قابلِ توجہ بات یہ ہے، کہ کافروں اور نافرمانوں کے ساتھ احسان کرنے کا معنٰی اُن سے دوستانہ تعلقات استوار کرنا یا اُن کی مجالس میں شرکت کرکے اُن کا ہم نوالہ و ہم پیالہ بننا یا اُن کی طغیانی و سرکشی کو دیکھنے کے باوجود اُن کے ساتھ مداہنت اور منافقت کی پالیسی اختیار کرنا، تو قطعاً درست نہیں۔ (کافروں اور نافرمانوں کے ساتھ احسان کرنا) اور (ان کے ساتھ دلی دوستی اور محبت رکھنا) دو الگ الگ باتیں ہیں۔ جس اللہ تعالیٰ نے (اُن کے ساتھ حسنِ سلوک) کی اجازت دی ہے، اسی اللہ تعالیٰ نے (اپنے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے) نافرمانوں کے ساتھ دلی محبت کرنے سے روکا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں: {لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْا آبَآئَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ہُمْ اَوْ اِِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیرَتَہُمْ}[1] (جو لوگ اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر یقین رکھتے ہیں، اُن کو آپ نہیں دیکھیں گے، کہ وہ اُن لوگوں سے دوستی رکھتے ہوں، جو اللہ تعالیٰ اور اُن کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں، اگرچہ وہ اُن کے باپ دادا ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی ہوں یا کنبے والے ہوں۔) علامہ رازی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
Flag Counter