Maktaba Wahhabi

166 - 346
سیاسیات ملکی کے ساتھ اس اہم فریضے کی جانب بھی توجہ دیں۔نیز مولوی عبدالواحد صاحب کو انجمن کے پروپیگنڈا سیکریٹری نامزد کیا جاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد تعمیر مسجد کے لیے کچھ حرکت پیدا ہوئی اور جلد ہی اس میں تیزی آگئی۔مولانا عبدالواحد نے اس سلسلے میں بے حدبھاگ دوڑ کی۔11 اکتوبر1936ء کو مسجد مبارک(لاہور)میں پنجاب کے اہلِ حدیث حضرات کا ایک اجتماع ہوا۔اس میں انجمن اہلِ حدیث فیصل آباد کے نمائندے کی حیثیت سے مولانا عبدالواحد نے شرکت کی، یہاں مختلف حضرات سے ان کی ملاقات ہوئی اور فیصل آباد میں مسجد کی تعمیر کے متعلق تعاون کے لیے درخواست کی گئی۔ حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری نے بھی جگہ خریدنے اور مسجد تعمیر کرنے کے متعلق اخبار اہلِ حدیث میں اعلان کرنا شروع کردیے۔وہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد یہاں مسجد اہلِ حدیث کی تعمیر ہو۔بالآخر جگہ خریدی گئی اور 1945ء میں مسجد تعمیر ہو گئی۔تعمیر کی نگرانی مولانا عبدالواحد کے سپرد تھی۔اس مسجد کے پہلے امام بھی مولانا عبدالواحد کو مقرر کیا گیا تھا۔وہ نہایت دیانت دار اور باہمت بزرگ تھے۔انھوں نے صحاح ستہ کی سند 4 رجب 1351ھ(3 نومبر 1932ء)کو مولانا محمد علی لکھوی سے لی تھی جو اس وقت لاہور کی چینیاں والی مسجد میں پڑھاتے تھے۔اس مسجد کے خطیب مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ ان دنوں سیاسی قیدی کی حیثیت سے جیل میں تھے اور ان کی جگہ انہی کی تجویز سے چینیاں والی مسجدمیں مولانا محمد علی لکھویخطابت و تدریس کی خدمات سر انجام دیتے تھے۔ جامع مسجد اہلِ حدیث امین پور بازار کی خطابت کا منصب مولانا محمد صدیق مرحوم کے سپرد بھی رہا اور مولانا احمد الدین گکھڑوی بھی یہاں کچھ عرصہ خطیب رہے۔اب کئی سال سے اس مسجد کے خطیب مولانا محمد یوسف انور ہیں، جو علماے کرام کے
Flag Counter