انھوں نے دکان دار کو السلام علیکم کہا تو دکان دار نے کتاب بند کی اور نہایت احترام سے کھڑے ہو کر انھیں دکان کے اندر لے گئے اور ان دونوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور وہ مجھے دکان میں لے گئے۔دکان دار نے ان کو شربت پیش کیا اور مجھے بھی پلایا۔اب دکان دار مجھ پر مہربان تھے۔ یہ دکان دار تھے جناب حافظ محمد یوسف گکھڑوی، اور دکان تھی انگریزی اور اردو کتابوں کے مشہور اہلِ حدیث ناشر شیخ محمد اشرف مرحوم کی۔ان کا دفتر تو اس سے دو تین دکانیں آگے دوسری منزل پر تھا، جہاں سے مختلف مقامات میں کتابیں بذریعہ ڈاک بھیجی جاتی تھیں، لیکن بازار کی اس دکان پر حافظ محمد یوسف گکھڑوی کام کرتے تھے جو شیخ صاحب کے نزدیک نہایت قابلِ اعتماد اور ذمے دار شخص تھے۔ حافظ صاحب کتاب و سنت کے تقوی شعار عالم اور پر جوش خطیب تھے، سراپا خلوص اور پیکر حسنات۔ان کا لہجہ اور اسلوبِ کلام ایسا تھا، جس سے سننے والے کو کچھ تلخی کا احساس ہوتا تھا، ورنہ عام مجلسی گفتگو میں وہ شیریں گفتار اور وضع دار بزرگ تھے۔یہ پہلے دیدار تھے جو حافظ صاحب کے میں نے کیے۔ جماعتِ اسلامی کی تاسیس کا دن: اس سے دوسرے دن 26 اگست 1941ء کو مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے ہندوستان کے بہت سے مقامات کے ان سرکردہ علما و زعما کا اجلاس بلایا تھا، جس میں جماعت اسلامی کی تاسیس عمل میں آئی۔مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور مولانا حکیم عبداللہ روڑی والے اسی اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور تشریف لائے تھے۔جماعت کے اس تاسیسی اجلاس میں ان کے ساتھ مجھے بھی شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی۔تعداد میں یہ 75 حضرات تھے جن کی موجودگی میں جماعت اسلامی معرضِ وجود |