Maktaba Wahhabi

124 - 148
صٰدِقِیْنَ وَ جَآئُ وْ عَلٰی قَمِیْصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ﴾ (یوسف:17-16) ’’شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے اور کہا:ابا جان !ہم دوڑکا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا،بھیڑیا آیا اور اسے کھاگیا اور آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے،خواہ ہم سچے ہوں اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹا خون لگا کر لے آئے تھے۔‘‘ لخت جگر کی ہلاکت کی خبر دیتے ہوئے،انہوں نے اپنے باپ کے بڑھاپے پر بھی رحم نہ کھایا۔ اورحکمت و دانش کی تمام حدوں کو پامال کرتے ہوئے انہوں نے انسانیت اور رحم وکرم کی تمام رسیاں کاٹ ڈالیں اور اخوت و محبت کے مفاہیم روند ڈالے۔ غور کیجئے!اگر قرآن کریم برادران ِیوسف کو حسد و کینہ،بھائی کے قتل کی سازش،مکرو فریب،فراڈ،حقائق پر پردہ ڈالنے،کذب بیانی،قرابت داری کی جڑیں کاٹنے،مہر و محبت کی روح کو قتل کرنے جیسے انسانیت سوز جرائم کا مرتکب قرار دے کر ان تمام جرائم کی الزامی فہرست پیش کر سکتا ہے تو وہ ان کی طرف کھیل کی طرف رجحان کی نسبت کیوں نہیں کر سکتا؟گولڈ زیہر کی اس عجیب و غریب سخن سازی پر عقل حیران ہے۔اور مزید حیران کن امر یہ ہے کہ جن علماء کو گولڈ زیہر نے ثقاہت اور علوم القرآن میں مہارت کی سند عطا کی ہے،جیسے زمخشری اور امام بیضاوی رحمہ اللہ اور دیگر مفسرین،انہوں نے بھی اس میں آیت میں لعب (کھیل)کی تفسیر دوڑ اور تیر اندازی میں مقابلہ سے کی ہے،جس کی دلیل برادران یوسف کا یہ قول ہے:﴿اِنَّا ذَہَبْنَا نَسْتَبِقُ﴾ کہ ’’ہم دوڑ کے مقابلے میں لگے ہوئے تھے۔‘‘ اس سے مراد کھیل تماشا نہیں ہے،وگرنہ یعقوب علیہ السلام کبھی اس پر رضامندی کا اظہار نہ کرتے۔نیز جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ برادران یوسف کو بعد میں مقامِ نبوت پر فائز نہیں کیاگیا تھا۔اور محض ان کا نبی کی اولاد ہونا ان جرائم کے ارتکاب سے مانع نہیں جن کی الزامی فہرست قرآن کریم نے پیش کی ہے۔اوراس پر نوح علیہ السلام کے بیٹے کی مثال ہمارے لیے کافی دلیل ہے۔
Flag Counter