Maktaba Wahhabi

141 - 148
قراءات کے الفاظ میں بظاہر فرق محسوس ہوتا ہے لیکن مفہوم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔مثلا،درج ذیل قراءات ملاحظہ کیجئے: ﴿وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِین﴾ (الاسراء 9)،﴿وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِین﴾ ( الکہف2)،﴿نَغْفِرْ لَکُمْ خَطیٰکُم﴾ (البقرہ58)،﴿یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ﴾ ( الممتحنہ3)،﴿تُظٰہِرُونَ﴾ (4) اور﴿یُظَٰہِرُون﴾ ( المجادلہ2) اور جن قراءات کے معانی میں اختلاف ہے،وہ اختلاف تنوع ہے،تضاد وتناقض کا اختلاف قطعاً نہیں ہے،کیونکہ کلامِ الٰہی میں تضاد ناممکن ہے۔مثلا درج ذیل آیات قرآنیہ ملاحظہ کیجئے: سورۃ النساء میں﴿أَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاء﴾ (23)،سورۃ البقرۃ میں﴿یَطْہُرْنَ﴾،اور سورۃ البقرۃ ہی میں﴿نُنْشِزُہَا﴾ (259) ہے۔ بہرحال عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کا مقصد یہ ہے کہ قراءات ِقرآنیہ معنوی اعتبار سے قریب قریب ہیں۔اورتم میں ہر شخص کو چاہیے کہ وہ قراءات کو اسی طرح پڑھے جس طرح اس نے صحیح سند کے ساتھ سیکھا ہے۔اگر ان کا یہ مطلب ہوتا کہ ہر شخص اپنی مرضی سے جس لفظ کے ساتھ چاہے قراء ت کر سکتا ہے،تو وہ یوں کہتے:فاقرء وا کما تختارون وتمیلون’’کہ تم اپنے رجحان کے مطابق جس طرح چاہو پڑھ لو۔‘‘ چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول تو یہ ثابت کر رہا ہے کہ قراءات ِقرآنیہ میں نقل وروایت کی اتباع ضروری ہے اوراس سلسلہ میں براہ راست سماع پر اعتماد کیا جائے گا۔اور ان کا یہ قول نظریۂ قراء ت بالمعنی کے ابطال کی زبردست دلیل ہے۔ باقی جہاں تک عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے قول کا تعلق ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب کوئی قاری ان حروف کے مطابق قراء ت کرتا،جن کی شارع کی طرف سے اجازت ہے،تو آپ اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے۔ابن مبارک رحمہ اللہ کے قول کو اس مفہوم پر محمول کرنے سے تمام دلائل اور نصوص شرعیہ کے درمیان مطابقت پیدا ہو جاتی
Flag Counter