Maktaba Wahhabi

143 - 148
گولڈ زیہر کے اقتباس کا تجزیہ: حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراء تِ قرآن میں کبھی بھی آزادی کی روش اختیار نہیں کی۔آپ اس قراء ت سے انحراف کر ہی نہیں سکتے تھے جو اللہ کی طرف سے بذریعہ جبریل امین علیہ السلام آپ پر نازل کی گئی تھی،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ہی یہی تھا کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے وحی کیا گیا ہے،اسے بغیر کسی کمی بیشی کے من وعن انسانیت تک پہنچا دیا جائے۔سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ﴿قُلْ مَا یَکُونُ لِی أَنْ أُبَدِّلَہُ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِی إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا یُوحَی إِلَیّ﴾ ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم،ان سے کہو،میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر و تبدل کر لوں،میں بس اس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔‘‘ نیز یہ بھی غلط طرز فکر ہے کہ ایک مخصوص قراء ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو اور اس بنیاد پر کہہ دیا جائے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہو گا کہ دیگر قراءات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھا،اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہیں،حالانکہ تمام قراءات متواترہ ومشہورہ اور دیگر قراءات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پڑھا ہے اور اسی حوالے سے وہ قراءات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے تمام قراءات برابر ہیں،ان کا سرچشمہ اور منبع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے لی گئی ہیں اور سب کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف ہو گی۔اگرچہ یہ درست ہے کہ ام المومنین یا کسی اور صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف کوئی مخصوص قراء ۃ اس بنیاد پر منسوب کر دی جائے کہ انہوں نے اس کا التزام کیا ہے یا بکثرت اسے پڑھا ہے،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قراءات کے حوالے سے اس قسم کی نسبت درست نہیں ہے،کیونکہ کسی صحیح بلکہ ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوتِ قرآن
Flag Counter