| تراسی سے ننانوے تک کی آیتوں میں مذکور ذوالقرنین کے قصہ میں حاکموں اور بادشاہوں کے لیے عبرت ہے، اس لیے کہ یہ بادشاہ متقی، عادل اور صالح ہونے کے باعث سد بناسکا اور دنیا پر حکومت قائم کرسکا، اسی قصے کے اثناء میں امر واقع سے مستفاد تین بہترین قسم کی مثالیں یہ ظاہر کرنے کے لیے ملتی ہیں کہ حق کا تعلق حکومت و مالداری سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ایمان سے ہے، سب سے پہلی مثال دو باغ والوں کا قصہ ہے جس میں اپنے مال پر مغرور مالدار اور اپنے ایمان پر فخر کرنے والے فقیر کے مابین موازنہ کیا گیا ہے تاکہ غریب مومنوں اور مالدار مشرکوں کی حالت بیان کی جائے۔ دوسری مثال دنیاوی زندگی کی ہے تاکہ لوگوں کو آگاہ کیا جاسکے کہ یہ دنیا فنا اور ختم ہونے والی ہے، اس کے بعد ہی قیامت کے بعض ہیبت ناک مناظر کو ذکر کیا گیا ہے، جیسے پہاڑوں کا چلانا، لوگوں کو میدان محشر میں جمع کرنا، لوگوں میں ان کے نامۂ اعمال کو تقسیم کرنا۔ تیسری مثال ابلیس کا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کرنے کا واقعہ ہے، تاکہ کبر و غرور اور اس کے نتیجے میں شیطان کو راندۂ درگاہ کرنے اور لوگوں کو اس کے شر سے آگاہ کرنے کے مابین اور اللہ کی عبودیت و تواضع اور اس کے نتیجے میں اللہ کی خوشنودی کے مابین موازنہ کیا جاسکے۔ اس کے بعد یہ بیان کیا گیا ہے کہ نصیحت و موعظت کے لیے، اللہ کی آیتوں سے اعراض کرنے پر ڈرانے، اور ان پر عمل کرنے پر بشارت دینے جیسی رسولوں کی ذمہ داریوں کو واضح کرنے کے لیے مثالوں کو بیان کرنے پر قرآن مجید میں کافی توجہ دی گئی ہے، سورت کا خاتمہ تین موضوعات پر ہوا ہے: پہلا کفار کے اعمال کے ناکارہ ہونے اور آخرت میں مفید نہ ہونے کا اعلان (۱۰۰-۱۰۶)۔ دوسرا نیک اعمال کرنے والے مومنوں کو ابدی نعمتوں کی خوش خبری(۱۰۷-۱۰۸)۔ تیسرا یہ کہ اللہ کا علم لامتناہی و لا محدود ہے(۱۰۹-۱۱۰)۔[1] آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تواضع کاحکم دیتے ہوئے فرمایا ہے: (قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا) (الکہف: ۱۱۰) ’’آپ کہہ دیجیے کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں، (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود برحق صرف ایک ہی معبود ہے، تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔‘‘ یعنی اے محمد! آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں انسان ہونے میں تمھیں جیسا ہوں، نہ تو میں فرشتہ ہوں اور نہ |
| Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
| Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
| Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
| Publish Year | |
| Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
| Volume | |
| Number of Pages | 548 |
| Introduction |