Maktaba Wahhabi

31 - 108
کا ہوگا نہ کہ کسی خاص سبب کا؛اس کی مثال آیات ِلعان میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: {وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُن لَّہُمْ شُہَدَائَ إِلَّا أَنفُسُہُمْ …إلی قولہ تعالی… إِن کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ }(النور:۶تا۹) ’’ اور جو لوگ اپنی عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہوں …آگے تک … اگر یہ سچا ہو تومجھ پر اللہ کا غضب (نازل ہو)۔‘‘ بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ’’ بیشک ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نے اپنی عورت پر شریک بن سمحاء کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ یا تو اس پر گواہی پیش کرو یا پھر تمہاری پیٹھ پر حد لگے گی ۔‘‘ اس پر حضرت ہلال رضی اللہ عنھم نے لگے: ’’ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کیساتھ مبعوث کیا ہے ‘ میں سچا ہوں ‘ اور اللہ تعالیٰ ضرور بالضرور اس معاملہ میں ایسی وحی نازل کرے گا جس کی وجہ سے میں حد سے بچ جاؤں ۔ تو حضرت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور یہ آیات نازل ہوئیں : {وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ … إِن کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ } ’’ اور جو لوگ اپنی عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں … اگروہ سچا ہو۔‘‘[1] سو یہ آیات ان کے نازل ہونے کا سبب ہلال بن امیہ کا اپنی بیوی پر الزام لگانا ہے۔ لیکن یہ حکم ان کے لیے اور ان کے علاوہ دیگر سب کو شامل ہے ۔ اس کی دلیل بخاری میں حضرت سعد بن سہل رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث ہے کہ: ’’ بیشک عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ‘ اور کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اگر ایک آدمی اپنی عورت کے ساتھ کسی مرد کو پائے اور اسے قتل کردے تو آپ اسے قتل کردیں گے؟ یا اس کے ساتھ آپ کا کیا سلوک ہوگا؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارہ
Flag Counter