Maktaba Wahhabi

47 - 108
خیر کے نہ پہنچے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ سلف امت رحمہم اللہ ایک واجب راہ پر چل رہے تھے۔ وہ قرآن کے الفاظ اور معانی سیکھتے تھے۔ کیونکہ وہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ کی مراد کے مطابق قرآن پر عمل کرنے میں متمکن ہوجاتے تھے ۔ کیونکہ جس چیز کی سمجھا ہی نہ جاسکے اس پر عمل کرنا نا ممکن ہے ۔ ابو عبد الرحمن سلمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہم سے ان لوگوں نے بیان کیا جو ہمیں قرآن پڑھاتے تھے جیسا کہ حضرت عثمان بن عفان اورعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اور ان کے علاوہ باقی لوگ ‘ بیشک جب وہ لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیات سیکھ لیتے ؛ وہ اس سے آگے تجاوز نہ کرتے یہاں تک کہ اس میں جو کچھ علم اور عمل ہے اسے سیکھ لیتے ‘‘۔ فرماتے ہیں : ’’ ہم نے قرآن اور علم اور عمل سب اکٹھا سیکھا ہے۔‘‘[1] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ عادتاً یہ بات ممتنع ہے کہ لوگ علم کے کسی فن کی کوئی کتاب پڑھیں جیساکہ طب ‘ حساب ‘ اور اس کی شرح نہ کریں۔ سو پھر اللہ تعالیٰ کے کلام کے ساتھ کیونکر ایسے ممکن ہے جو کہ ان کی عصمت ہے ‘ اور اس میں ان کی نجات اور سعادت اور دین و دنیا کا قیام ہے ۔‘‘[2] اور اہل علم پر واجب ہے کہ وہ تقریراً و تحریر اً اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں ‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : {وَإِذَ أَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَہُ} (آل عمران:۱۸۷) ’’اور جب اللہ نے اہل کتاب سے اِقرار لیا کہ (جو کچھ اس میں لکھا ہے) اُسے صاف صاف بیان کرتے رہنا اور اس (کی کسی بات) کو نہ چھپانا ‘‘ ۔
Flag Counter