Maktaba Wahhabi

61 - 108
بہت سارے اہل ِ علم کے نزدیک قرآن مجید کا حرفی ترجمہ کرنا مستحیل ہے۔کیونکہ اس قسم کے ترجمہ کے لیے کئی شرطیں ہیں جن کا پورا ہونا مشکل ہے ۔ان شروط میں سے : ۱: جس زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہے ‘ اس میں ترجمہ کی جانے والی زبان کے مفردات کے برابر مفردات بھی پائے جائیں۔ ۲: جس زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہے اس میں معانی کے لیے مناسب ادوات (ڈھنگ اسلوب / آلہ ) بھی پائے جائیں جوترجمہ کی جانے والی زبان میں پائے جاتے ہیں۔‘‘[1] ۳: دونوں زبانوں مترجم منہا اور مترجم الیہا کلمات ترتیب اور ترکیب میں،جملوں، اضافت ‘اور صفات میں متماثل ہوں۔ بعض علماء کرام رحمہم اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ: ’’ حرفی ترجمہ بعض آیات میں یا اس طرح (کی عبارات میں) ممکن ہے۔ لیکن اگرچہ اس طرح کے مواقع پر اس کاتحقق ممکن بھی ہو ، لیکن یہ حرام ہے ۔کیونکہ اس میں معانی کو پورے کمال کے ساتھ ادا نہیں کیا جاسکتا۔[2] اور نہ ہی واضح عربی قرآن کی طرح اس کی نفوس میں کوئی تاثیرہوتی ہے ۔(جبکہ قرآن دلوں کو وعظ کرنے کے لیے نازل ہوا ہے )۔ اور معنوی ترجمہ اس سے مستغنی کردیتا ہے ‘ اس لیے اس کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ۔اس بنا پر اگر چہ حرفی ترجمہ بعض کلمات میں حساً ممکن بھی ہو ، لیکن یہ شرعاً ممنوع ہے ۔الاّ یہ کہ کسی خاص کلمے کا اس زبان میں ترجمہ کردیا جائے ‘ تاکہ اس کا سمجھنا آسان ہوجائے، لیکن پوری ترکیب کا ترجمہ نہ کیا جائے ‘ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جب کہ قرآن کا معنوی ترجمہ اصل میں جائز ہے ۔ کیونکہ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور کبھی یہ واجب بھی ہوجاتا ہے ‘ جب یہ قرآن اور اسلام کو غیر عربی زبان بولنے والوں
Flag Counter