Maktaba Wahhabi

91 - 108
’’ اللّٰه ربي وبہ أحلف لینصرن المؤمنین ۔‘‘ ’’اللہ میرا رب ہے ‘اور میں اسی کی قسم اٹھاتا ہوں ! وہ ضرور مؤمنین کی مدد کرے گا۔‘‘ تاء : جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { تَاللّٰهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَفْتَرُونَ} (النحل:۵۶) ’’ اللہ کی قسم! جو تم افتراء کرتے ہو اس کی تم سے ضرور پرسش ہو گی۔‘‘ اس کے ساتھ بھی عامل ( قسم اٹھانے والے )کو وجوباً حذف کیا جاتاہے ۔اور اس کے ساتھ سوائے لفظ جلالہ’’ اللہ ‘‘(اسم ذات )کے کوئی اور اسم جیسے رب وغیرہ نہیں آسکتا ۔ یہ جائز نہیں کہ کوئی کہے: ’’ترب الکعبہ لأحجن إن شاء اللّٰه۔‘‘ ’’مجھے رب کعبہ کی قسم ہے ! میں ان شاء اللہ ضرور حج کروں گا۔‘‘ اور مقسم بہ ( جس کی قسم اٹھائی جارہی ہو) کا ذکر کرنا ہی اصلی صورت ہے جیسے سابقہ مثالوں میں بیان کیاگیاہے ۔اور بسا اوقات اکیلے مقسم بہ کو حذف کیا جاتا ہے ‘ جیسے آپ کا یہ قول : ’’أحلف علیک لتجتہدن۔‘‘ ’’میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ ضرور محنت کریں گے۔‘‘ کبھی یہ عامل کے ساتھ حذف کیا جاتا ہے۔اور ایسا ہونا بہت زیادہ ہے ، جیسے فرمان الٰہی ہے : {ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ } (التکاثر:۸) ’’ پھر اس روز تم سے (شکرِ) نعمت کے بارے میں پرسش ہو گی۔‘‘ اصل میں مقسم علیہ کو ذکر کرنا چاہیے، یہ قرآن میں بہت زیادہ ہے، فرمان الٰہی ہے: {قُلْ بَلَی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ} (التغابن:۷) ’’کہہ دو کہ ہاں ہاں میرے پروردگار کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔‘‘ اور کبھی اسے جوازاً حذف بھی کیا جاتا ہے ‘ جیسا کہ فرمان ِالٰہی ہے :
Flag Counter