Maktaba Wahhabi

42 - 42
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کسی مجلس میں حاضرین سے پوچھنے پر ایک بوڑھے نے ننگی تلوار لہرا کر کہا کہ اگر تو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے علاوہ اپنی خواہش کے مطابق حکم دے گا تو میری یہ تلوار تمہاری گردن تن سے جدا کر دے گی۔اس پر امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ابھی عمر کو سیدھا کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ اس عہد زریں کے بعد بڑے بڑے ائمہ کرام اور صالحین لوگوں نے اپنے اپنے دور کے ’’قائدین‘‘ کو سیدھا رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی،خواہ اس مشکل ترین راہ میں اُنہوں نے جان سے ہاتھ دھو لئے یا جوانی اور بڑھاپا جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا۔خواہ کوڑے مارنے سے اُن کی پیٹھ ٹیڑھی ہو گی یا ہاتھ ہمیشہ لٹکے ہی رہے،خواہ اُن کی نعشیں جیل سے برآمد ہوئیں یا بھری محفلوں میں انہیں تہِ تیغ کر دیا گیا،اُنہوں نے اپنے ’’قائدین‘‘ کو بہرحال سیدھا رکھا۔بھلے اپنے ’’قائد‘‘ کی صرف ایک ہی غلط بات پر اُسے باز رکھنے کی کوشش کی۔مثلاً زبردستی طلاق واقع ہونے کی ضد کو امام مالک رحمہ اللہ نے حدیث کی رو سے غلط کہا اور ڈٹ گئے۔وہ خود تو دنیا کے لئے عبرت کا نشان بن گئے لیکن قائد کی غلط بات کو تسلیم نہ کر کے دین کوہمیشہ کے لئے زندہ کر گئے۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بادشادہ کی سوچ ’’قرآن مخلوق ہے‘‘ کی مخالفت کی اور قرآن و حدیث سے ایسے دلائل پیش کئے کہ ’’قائد‘‘ کی تمام دلیلیں ختم ہو گئیں،چنانچہ اسی سچ کی پاداش میں امام صاحب کو کوڑے لگائے جاتے رہے،پوری جوانی اور بڑھاپا جیل کی سلاخوں کی نذر کر دیا گیا لیکن اپنے چار قائدین کی ایک ہی غلط بات کو کبھی مصلحت کے تحت بھی ’’ٹھیک‘‘ نہ کہا جس کا نتیجہ پوری اُمت پر احسان کی صورت میں نکلا کہ قرآن کو مخلوق کہہ کر ختم کرنے کی سازش بھی ختم ہو گئی۔
Flag Counter