Maktaba Wahhabi

89 - 114
’’اے ایمان والو ! جب تم لشکر کی صورت میں کفار سے (مقابلہ میں) دوچار ہو تو پیٹھ نہ پھیرو۔‘‘ سورۂ انفال ہی کی آیت (۴۵) میں ہے : { اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا۔} [سورۃ الانفال:۴۵] ‘’جب تم کسی گروہ سے مقابلہ پر اُترو تو ثابت قدم رہو۔‘‘ ان سب آیات میں {اِذَا}عموم ِزمان کیلئے ہے،اسی طرح ہی [اِذَا افْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ،وَاِذَا رَکَعَ،وَ اِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ]میں رفع یدین کا حکم بھی عمومی ہے۔ پھر احادیث ِرفع یدین میں [ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ]اور[ کَانَ یَفْعَلُ ہٰکَذَا ] کے صیغے وارد ہوئے ہیں،جبکہ [کَانَ یَفْعَلُ] کاصیغہ در اصل دوام واستمرار کے لیٔے ہی آتا ہے،اگرچہ بعض مواقع پر کسی وجہ سے ایسا نہ بھی ہو،کیونکہ حقیقت کا ہر جگہ ہی مستعمل ہونا ضروری نہیں ہوتا،غرض احادیث ِ رفع یدین میں ماضی ٔاستمراری کے صیغے رفع یدین کے دوام و استمرار پر اور اس کے منسوخ نہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں،اس فنی وعلمی موضوع کی تفصیل کے لیٔے فتح الباری (۲/۵۷۲) کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمائیں : ( وَفِيْحَدِیْثِ ابْن ِعُمَرَ مَایَدُلُّ عَلیٰ الْمُدَاوَمَۃِ وَھُوَ قَوْلُہٗ بَعْدَ ذِکْرِالْحَرْبَۃِ: وَکَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِيْ السَّفَرِ )۔ ’’اور حدیث ِ ابن ِ عمررضی اللہ عنہما میں اس بات کی دلیل بھی موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشگی فرمائی اور اس بات کا پتہ ذکر ِحربہ [نیزہ] کے بعد والے یہ الفاظ دیتے ہیں : ’’اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )سفر میں ہمیشہ ایسے ہی کیا کرتے تھے۔‘‘ ایسے ہی امام شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب ارشاد الفحول (ص: ۱۱۵)میں ان کے الفاظ یہ ہیں :
Flag Counter