Maktaba Wahhabi

106 - 352
ان آیات کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد ان آیات میں اللہ تعالیٰ کیلئے ’’عینین‘‘(دوآنکھوں )کا اثبات ہے ،جواپنے حقیقی معنی میں قائم ہیں اور بالکل ایسی ہیں جیسی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شان وعظمت کے لائق ہیں۔ قرآن میں لفظِ’’عین‘‘ کی اللہ تعالیٰ کی طرف بصیغۂ مفرد (العین)اوربصیغۂ جمع (اعین) جبکہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ تعالیٰ کی طرف مثنیً اضافت مذکور ہیں۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی موجود ہے :[ ان ربکم لیس بأعور ] یعنی [تمہارا رب کانا نہیں ہے۔](متفق علیہ) اور یہ حدیث اس معنی میں صریح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت صرف ایک آنکھ کا اثبات نہیں ، کیونکہ ایک آنکھ ہونا تو ظاہراً کانا پن ہے ،جس سے اللہ تعالیٰ پاک ہے۔ لغتِ عرب میں مضاف مفرد ،تثنیہ ،اور جمع بحسبِ احوالِ مضاف الیہ مستعمل ہوا ہے ، لہذا اگر واحد کو مفرد کی طرف مضاف کرنا ہو تو مضاف کو مفرد لاتے ہے ،اور اگر مضاف الیہ جمع ہو چاہے اسمِ ظاہر ہو یا اسم ِضمیر ،تو احسن بات یہ ہے کہ مضاعف کو بھی جمع لایا جائے،تاکہ لفظی مشاکلت پیدا ہوجائے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے :’’ تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَا‘‘ یا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : { اَوَلَمْ یَرَواَنَّاخَلَقْنَالَھُمْ مِمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَااَنْعَامًا} اور اگر اسمِ مثنی کی طرف اضافت کرنی ہو تو لغتِ عرب میں افصح بات یہ ہے کہ مضاف کا جمع لایا جائے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا } (یقینا تمہارے دل جھک پڑے ہیں) یہاں قلوب بصیغہ جمع مذکور ہے حالانکہ یہاں دودلوں کا ذکر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص یوں کہے : ’’نراک باعیننا ونأخذ ک بایدینا‘ ‘( ہم تجھے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور تجھے اپنے ہاتھوں سے پکڑیں گے) تو یہاں اگر چہ ’’اعین‘‘ بصیغہ جمع مذکور ہے لیکن سامع کسی قسم کے التباس میں نہیں پڑتا اور نہ ہی روئے زمین کا کوئی بشراس جملہ سے یہ سمجھ سکتاہے کہ ایک ہی چہرے پر بہت ساری آنکھیں ہوتی ہیں۔(واللہ اعلم)
Flag Counter