Maktaba Wahhabi

138 - 352
بمعنی طرق وابواب کے ہے،یعنی میں آسمان کے راستوں اور دروازوں تک پہنچ جاؤں ۔ ’’فَأَطَّلِعَ اِلٰی اِلٰہِ مُوْسٰی‘‘ (تاکہ موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں) فرعون کے اس مقولہ کا مقصد موسیٰ علیہ السلام کے دعویٰ کہ ’’مجھے اللہ نے بھیجا ہے‘‘یایہ کہ ’’میرا معبود آسمانوں میں ہے‘‘ کی تکذیب ہے، اس لیئے فرعون نے مزید یہ بھی کہا:’’وَإِ نِّیْ لَأَظُنُّہٗ کَاذِبًا‘‘ یعنی میں موسیٰ کو اس کے دعویٔ رسالت یا اس دعویٰ میں کہ اس کا الٰہ آسمانوں میں ہے ،میں جھوٹا سمجھتا ہوں۔ اس آیت سے بھی اللہ تعالیٰ کے ’’ علو علی خلقہ‘‘ کا اثبات ہے،کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے متعلق یہی بتایا تھا اور فرعون نے اس بات کی تکذیب کی کوشش کی۔ { أَ أَ مِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَائِ أَنْ یَخْسِفَ بِکُمُ الْأَرْضَ فَاِذَا ھِیَ تَمُوْرُ۔ أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَائِ أَنْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُوْنَ کَیْفَ نَذِیْرٌ} (ا لملک:۱۶،۱۷) ترجمہ:’’ کیا تم اس بات سے امن میں آگئے ہو کہ جو ذات آسمانوں میں ہے وہ تمہیں زمین میں دھنسادے اور اچانک زمین لزرنے لگے۔ کیا تم اس بات سے نڈر ہوگئے ہو کہ جو ذات آسمانوں میں ہے وہ تم پر پتھر برسائے ،پھر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا‘‘ … شر ح … ’’ أَ أَ مِنْتُمْ‘‘ (کیا تم امن میں آگئے ہو) امن ،خوف کی ضدہے، ’’مَّنْ فِی السَّمَائِ ‘‘ یعنی اس ذات کی سزا سے جو آسمانوں میں ہے۔ آسمانوں میں ہونے کا معنی آسمانوں کے اوپر ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :{ وَلَأُصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ} اور یہ معنی تب ہوگا اگر ’’السماء ‘‘سے مراد یہ بنے ہوئے آسمان مراد ہوں،اور اگر ’’السماء ‘‘سے مراد مطلقا بلندی ہو تو اس صورت میں فی ظرف کیلئے ہوگا معنی ہوگا فی العلو(بلندی میں)
Flag Counter