Maktaba Wahhabi

156 - 352
ترجمہ:’’ یقینا یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے ان اکثر چیزوں کا بیان کررہا ہے جن میں یہ اختلاف کرتے ہیں‘‘ (النمل:۷۶) …شرح… ’’ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ‘‘بنی اسرائیل جو کہ حاملینِ توراۃ وانجیل ہیں ’’ اَکْثَرَ الَّذِیْ ھُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ‘‘جیسا کہ یہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق باہم اختلاف رکھتے ہیں، یہودیوں نے عیسیٰعلیہ السلام پر افتراء باندھا ہے اور نصاریٰ ان کے حق میں غلو کا شکار ہیں،جبکہ قرآن نے قولِ وسط جو کہ برحق ہے کو بیان کیا ہے، کہ عیسیٰ اللہ کا بندہ ،اس کا رسول اوراس کا وہ کلمہ ہے جس کا اس نے مریم پر القاء فرمایا اور اس کی پھونک ہے ۔ اس آیت سے شاہد یہ ہے کہ قرآن کلام اللہ ہے کیونکہ قرآن کتب سابقہ کو متضمن ہے اور اہل کتاب کے باہمی اختلاف میں حق کے ساتھ حکم لگاتا ہے اور یہ دونوں باتیں من عنداللہ ہی ہوسکتی ہیں۔ مؤلف رحمہ اللہ کی ذکر کردہ ان آیات کے مجموعے سے اللہ تعالیٰ کیلئے کلام کا اثبات ہورہا ہے اور اہل السنۃ والجماعۃ کا مذہب بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ موصوف بالکلام ہے،کتاب وسنت بھی اس پر دال ہیں۔کلام ،اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ذاتیہ میں سے ہے کیوں کہ صفتِ کلام اللہ کے ساتھ قائم ہے اوراللہ تعالیٰ صفتِ کلام کے ساتھ متصف ہے ۔نیزکلام، اللہ تعالیٰ کی صفاتِ فعلیہ میں سے بھی ہے جو اس کی مشیئت اور قدرت کے ساتھ واقع ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ جب چاہتاہے اور جو چاہتا ہے کلام فرماتاہے ۔ وہ ازل سے متکلم ہے اور ابد تک متکلم رہے گا، کیوں کہ وہ ازل سے کا مل ہے اور ابد تک کامل رہیگا اور کلامِ صفات کمال میں سے ہے۔اور اس لئے بھی کہ اللہ نے خود اپنی ذات کو صفتِ کلام سے متصف کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ تعالیٰ کو اس صفت کے ساتھ متصف کیا ہے آگے جاکر اس مسئلہ میں مخالفین کے مذہب اور اس پر رد کا ذکر آئے گا(ان شاء اللہ )
Flag Counter