Maktaba Wahhabi

160 - 352
اس کے بعد ان کے اس زعمِ باطل کہ یہ تبدیلی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے ہے، اور یہ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس تبدیلی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرکے اللہ پر افتراء باندھا ہے، کا رد کرتے ہوئے فرمایا:’’ قُلْ نَزَّلَہٗ‘‘یعنی اس قرآن کو نازل کیاہے۔ ’’رُوْحُ الْقُدُسِ‘‘یعنی جبرئیل۔ القدس بمعنی’’ الطھر‘‘ یعنی پاک ہے۔آیت کا معنی یوں ہوگا کہ پاک روح نے اس قرآن کو اُتارا۔یہ عبارت موصوف کی صفت کی طرف اضافت کے قبیل سے ہے ۔(یعنی ’’روح القدس‘‘ بظاہر ترکیبِ اضافی ہے لیکن حقیقت میں ترکیب ِتوصیفی ہے۔)’’ِ مِنْ رَّبِّکَ‘‘یعنی قرآن کی تنزیل کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی ہے۔’’ بِالْحَقِ‘‘یہ حال ہونے کی بناء پر محلاً منصوب ہے،یعنی یہ تنزیل متصف بالحق ہے۔ ’’ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ أٰمَنُوا‘‘یعنی نزولِ قرآن اور پھر قرآن میں نسخ کے وجود کی حکمت یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو ایمان پر مزید پختہ کردیا جائے، چنانچہ وہ نسخ کے وقت یہ کہتے ہیں :کہ ہر ناسخ و منسوخ ہمارے پروردگارکی طرف سے ہے۔ پھر جب نسخ میں موجودمصلحتوں اور حکمتوں کا انہیںمزید علم ہوتا ہے تو وہ ایمان پر مزید ثابت قدمی اختیار کرلیتے ہیں۔ ’’وَھُدًی وَبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ‘‘یہ دونوں ’’لِیُثَبِّت‘‘کے محل پر معطوف ہیں، معنی ہوگا کہ قرآن مؤمنوں کی تثبیت ،ہدایت اور تبشیر کیلئے نازل ہوا ہے۔ کفار کے ایک شبہ کا ذکر کرتے ہو ئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ‘‘یعنی :ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ یہ کفار کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سکھانے والاکوئی فرشتہ نہیں ہے بلکہ بنی آدم میں سے کوئی بشر ہے، اور اس بشر نے توراۃ، انجیل اور دیگر عجمی کتب پڑھی ہوئی ہیں،کیونکہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو ان پڑھ ہونے کی وجہ سے قرآن میں ذکر شدہ قرونِ اولیٰ کی اخبار کوتورات ،انجیل اور دیگر عجمی کتب سے نقل نہیں کرسکتے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا:’’ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ إِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ ‘‘یعنی جس بشر کے متعلق ان کا
Flag Counter