Maktaba Wahhabi

220 - 352
اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم آہستہ سے اسے پکاریں ،یابعید ہے کہ اونچی آواز سے پکاریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے تو آیت:{ وا ذا سألک عبا دی…} نازل ہوئی ۔ اس آیت ِکریمہ میں دعا میں بغیر آواز کے مناجات کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ا س بات پر دلالت کرتا ہے: [ان الذی تدعونہ أ قرب ا لی أ حد کم من عنق راحلتہ]ترجمہ:[جس ذات کو تم پکارتے ہووہ تو تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے] یہ آیت اور حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ دعاکرنیوالے سے قریب ہوتا ہے اور اس کی دعا قبول فرماتا ہے،البتہ یہ قرب اس کے علو(بلندی) کے منافی نہیں ہے، کیونکہ دونوں باتیں ثابت اور برحق ہیں ،اور حق میں تناقض نہیں ہوتا ،اور اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ کی جمیع صفات میں کوئی بھی اس کا مثل نہیں ہے۔ لہذا یہ سوال کرنا غلط ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے اوپر ہے تو ان کے ساتھ کیسے ہوسکتا ہے؟ کیونکہ یہ سوال دراصل ایک غلط تصور کی بناء پر ہے ،وہ اللہ تعالیٰ کو مخلوق پر قیاس کرنا ہے اور یہ قیاس بالکل باطل ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: { لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ } اللہ تعالیٰ کی عظمت ،کبریائی ،احاطہ اور یہ کہ ساتوں آسمان اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ایسے ہیں جیسے کسی بندے کے ہاتھ میں رائی کا دانہ ہو،کے پیشِ نظر قرب اور علو اس کے حق میں جمع ہوسکتے ہیں ،بھلا جس ذات کی یہ عظمت ہو اس کے حق میں یہ بات کیسے محال ہوسکتی ہے کہ وہ عرش پر ہونے کے باوجود ،جس طرح وہ چاہے مخلوق کے ساتھ بھی ہو۔ نصوصِ کتاب وسنت اور اجماعِ علماء ملت اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ا پنی مخلوق کے ساتھ قرب کی حالت میں بھی اپنی مخلوق سے بلند ہے ،اور عرش پرہونے کی حالت میں بھی اپنی مخلوق کے قریب ہے اور یہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوبی ہے۔
Flag Counter