Maktaba Wahhabi

232 - 352
کہ اہلِ ایمان اس کلمہ کو مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں چاہے اس راہ میں انہیں کتنی ہی تکالیف اور پرشانیوں کا سامنا کرنا پڑے،اور آخرت میں اس کلمہ کے ساتھ ثابت قدم رہنے کا معنی یہ ہے کہ قبر میں فرشتوں کے سوالات کا صحیح اوردرست جواب دینے کی انہیں توفیق نصیب ہوتی ہے۔ مؤمن کے برعکس مرتاب(شکوک وشبہات میں مبتلاشخص) فرشتوں کے سوالات پر ھاہ ھاہ کہتا ہے ۔’’ھاہ ھاہ ‘‘ایک ایسا کلمہ ہے جو تردد اوراظہارِتکلیف کے موقع پر ادا کیا جاتا ہے۔ نیز وہ کہتا ہے:[لاادری سمعت الناس یقولون شیئا فقلتہ] (مجھے کچھ معلوم نہیں جو لوگ کہتے تھے میں بھی وہ کہتا تھا) کیوںکہ یہ شخص پیغمبر کی لائی ہوئی شریعت پر کامل ومکمل ایمان نہیں رکھتا تھا اس لئے اس پر جواب دینا مشکل ہوجاتا ہے اگرچہ دنیاوی اعتبار سے وہ کتنا ہی علم ومعرفت اور فصاحت وبلاغت کا حامل کیوں نہ ہو،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس آیت میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے: { وَیُضِلُّ اللّٰه الظَّالِمِیْنَ } ترجمہ:’’ہاں ناانصاف لوگوںکواللہ بہکادیتا ہے ‘‘ تو ایسے شخص کو لوہے کے بڑے ہتھوڑے کے ساتھ ضرب لگائی جاتی ہے ،ضرب کی تکلیف سے وہ زور سے چیختا ہے، جسے انسان کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے عدمِ سماع کی حکمت یہ بتائی ہے کہ اگر انسان اس دردناک چیخ کو سن لے تو مرجائے یا بیہوش ہوکر گرپڑے ، قبر میں میت پر طاری ہونے والے احوال کے انسانوں کے عدم احساس وادراک کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے امورِ غیب میں رکھا ہے،کیونکہ اگر ان احوال وکیفیات کو ظاہر کردیا جائے تو حکمت مطلوبہ یعنی ایمانِ بالغیب فوت ہوجائے گی۔ ا لأمر الثانی: قبر میں میت کو پیش آنے والا دوسرا معاملہ نعمتوں یا تکلیفوں کا ہے، (چنانچہ مؤمن مستحقِ نعمت قرار پائیں گے اور مرتاب یعنی شک وشبہ میں رہنے والے مستحقِ عذاب)اور دونوں کی یہ حالت قیامتِ کبریٰ کے قائم ہونے تک برقرار رہے گی۔مصنف رحمہ اللہ کی اس تصریح سے مقصود اثبات عذابِ ا لقبر ونعیم ا لقبرہے۔
Flag Counter