Maktaba Wahhabi

52 - 93
۲۔متعلقہ افسر اگر سائل کے ذاتی حالات اورمعاملات سے آگاہ نہ ہو تب بھی وسیلے اور واسطے کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ متعلقہ افسر کو مطلوبہ معلومات فراہم کی جاسکیں جن پر وہ اعتماد کرسکے ۔ ۳۔اگر افسر بالا بے رحم ‘بے انصاف ‘اور ظالم طبیعت کا مالک ہو تب بھی وسیلے اور واسطے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہیں خود سائل ہی بے انصافی اور ظلم کا شکارنہ ہوجائے ۔ ۴۔اگر افسر سے ناجائز مراعات اور مفادات کا حصول مطلوب ہو (مثلاً رشوت دے کر یا کسی قریبی رشتہ دار والدین‘بیوی‘یا اولاد وغیرہ کا دباؤ ڈلوا کر مفا حاصل کرنا ہو)تب بھی وسیلے اور واسطے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔ یہ ہیں وہ مختلف صورتیں جن میں دنیاوی واسطوں اور وسیلوں کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ان تمام نکات کو ذہن میں رکھئے اور پھر سواچئے کیا واقعی اﷲتعالیٰ کے ہاں دربان مقرر ہیں کہ اگر کوئی عام آدمی درخواست پیش کرنا چاہے تو اسے مشکل پیش آئے اور اگر اس کے مقرب اورمحبوب آئیں تو ان کے لئے اذن عام ہو؟کیا واقعی اﷲتعالیٰ بھی دنیاوی افسروں کی طرح اپنی مخلوق کے حالات اورمعاملات سے لاعلم ہے جنہیں جاننے کے لئے اسے وسیلے یا واسطہ کی ضرورت ہو ؟کیااﷲتعالیٰ کے بارے میں ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے کہ وہ ظلم بے انصافی اور بے رحمی کا مرتکب ہوسکتا ہے ؟کیااﷲتعالیٰ کے بارے میں ہمارا ایمان یہی ہے کہ دنیاوی عدالتوں کی طرح اس دربار میں بھی رشوت یا واسطے اور وسیلے کے دباؤ سے ناجائز مراعات اور مفادات کا حصول ممکن ہے ؟اگر ان سارے سوالوں کا جواب ’’ہاں‘‘میں ہے تو پھر قرآن مجید اور حدیث شریف میں اﷲسبحانہ تعالیٰ کے بارے میں بتائی گئی ساری صفات مثلاً ‘رحمن ‘رحیم ‘کریم ‘رؤف‘ودود‘سمیع‘بصیر‘علیم‘قدیر‘خبیر‘مقسط وغیرہ کا مطلقاً انکار کردیجئے اور پھر یہ بھی تسلیم کرلیجئے کہ جو ظلم وستم ‘اندھیر نگری اور جنگل کا قانون اس دنیا میں رائج ہے (معاذاﷲ)اﷲتعالیٰ کے ہاں بھی وہی قانون رائج ہے اور اگر ان سوالوں کوجواب نفی میں ہے (اور واقعی نفی میں ہے)تو پھر سوچنے کے بات یہ ہے کہ مذکورہ اسباب کے علاوہ وہ کون سا سبب ہے جس کے لئے وسیلے اور واسطے کی ضرورت ہے ؟ ہم اس مسئلے کو ایک مثال سے واضح کرنا چاہیں گے ‘غور فرمائیے اگر کوئی حاجتمند پچاس یا سو میل دور
Flag Counter