Maktaba Wahhabi

71 - 93
کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اﷲنظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کواﷲکی ذات کا جزء سمجھنے لگتا ہے‘تصوف کی اصطلاح میں اس عقیدہ کو وحدت الوجودکہا جاتا ہے ‘عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی کرنے کے بعد انسان کی ہستی اﷲکی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے اور وہ دونوں (خدا اور انسان)ایک ہوجاتے ہیں ‘اس عقیدے کو وحدت الشہود یا ’’فنا فی اﷲ‘‘کہا جاتا ہے ‘عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدرلطیف اور صاف ہوجاتا ہے کہاﷲکی ذا ت خود اس انسان میں داخل ہوجاتی ہے جسے حلول کہا جاتا ہے ۔ غور کیاجائے تو ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ کہ ’’انساناﷲکی ذات کا جزء اور حصہ ہے ‘‘یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہندو مت کے عقیدہ ’’اوتار‘‘بدھ مت کے عقیدہ ’’نرواں‘‘اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجوداور حلول ہے[1]یہودیوں نے فلسفہ حلول کے تحت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کواﷲکا بیٹا (جزء)قرار دیا۔مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں ‘اہل تشیع اور اہل تصوف ‘کے عقائد کی بنیاد بھی یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے ۔صوفیاء کے سرخیل جناب حسین بن منصور حلاج (ایرانی)نے سب سے پہلے کھلم کھلا یہ دعویٰ کیا کہ خدا اس کے اند رحلول کرگیا ہے اور اَنَا لحقَ (میں اﷲ ہوں )کا نعرہ لگایا منصور بن حلاج کے دعویٰ خدائی کی تائید اور توصیف کرنے والوں میں علی ہجویری اور شیخ عبدالقادر جیلانی اور سلطان الاولیاء خواجہ
Flag Counter