Maktaba Wahhabi

74 - 93
احدیت (یعنی اﷲ تعالیٰ)مع جملہ صفات ونعوت وجلالیت آئینہ محمدی میں تجلی فرما ہے [1] قدیم وجدید صوفیاء کرام نے فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کو درست ثابت کرنے کے لئے بڑی طول وطویل بحثیں کی ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ آج کے سائنسی دور میں عقل اسے تسلیم کرنے کے لئے قطعاً تیار نہیں ‘جس طرح عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث ’’ایک میں سے تین اور تین میں سے ایک ‘‘عام آدمی کے لئے ناقابل فہم ہے اسی طرح صوفیاء کا یہ فلسفہ ’’کہ انسان اﷲمیں یااﷲانسان میں حلول کئے ہوئے ہے‘‘ناقابل فہم ہے ‘اگر یہ فلسفہ درست ہے تو اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ انسان ہی درحقیقت اﷲ ہے اوراﷲہی درحقیقت انسان ہے ‘اگر امر واقعہ یہ یہ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عابد کون ہے اور معبود کون؟ ساجد کون ہے مسجود کون؟خالق کون مخلوق کون؟حاجت مند کون حاجت روا کون ؟مرنے والا کون مارنے والاکون ؟زندہ ہونے والا کون زندہ کرنے والا کون ؟گنہگار کون بخشنے والا کون ؟روز جزاء حساب لینے والا کون ہے دینے والا کون ؟اور پھرجزاء یا سزا کے طور پر جنت یا جہنم میں جانے والے کون ہیں اور بھیجنے والا کون ؟اس فلسفہ کو تسلیم کرلینے کے بعد انسان ‘انسان کا مقصد تخلیق اور آخرت یہ ساری چیزیں کیا ایک معمہ اور چیستاں نہیں بن جاتیں ؟اگراﷲتعالیٰ کے ہاں واقعی مسلمانوں کا یہ عقیدہ قابل قبول ہے تو پھر یہودیوں اور عیسائیوں کا عقیدہ ’’ابن ا ﷲ‘‘کیوں قابل قبول نہیں ؟مشرکین کا یہ عقیدہ کہ انسان اﷲکاجزء ہے کیوں قابل قبول نہیں؟[2]وحدت الوجود کے قائل بت پرستوں کی بت پرستی کیوں قابل قبول نہیں حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کواﷲکی ذات کا جزء سمجھنا (یااﷲکی ذات میں مدغم سمجھنا)یااﷲتعالیٰ کو کسی انسان میں مدغم سمجھنا ایسا کھلا اور عریاں شرک فی الذات ہے جس پراﷲتعالیٰ کا شدید غضب بھڑک سکتا ہے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کواﷲکا بیٹا (جزء )قرار دیا تو اس پراﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں جو تبصرہ فرمایا ہے اس کا ایک ایک لفظ قابل غور ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
Flag Counter